کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 366
سزا کا ذکر ہے کہ اس کو زد و کوب اور زجر و توبیخ کے ذریعے سے اس کی حوصلہ شکنی کرو، کیوں کہ مرد کے لیے محنت اور کسبِ معاش کی سرگرمیوں کے لیے گھر سے نکلنا ناگزیر ہے، اس کو گھر کی چار دیواری کے اندر طویل عرصے تک نہیں رکھا جا سکتا اور حتیٰ﴿یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا﴾ (النساء: 15)سے واضح ہے کہ مرد و عورت کی یہ دونوں سزائیں عارضی اور عبوری دور کے لیے ہیں، مستقل سزا کے حکم کے بعد یہ دونوں سزائیں ختم اور دوسری نافذ ہوجائیں گی۔
چناں چہ جب اﷲ تعالیٰ نے سورت نور میں زنا کی مستقل سزا نازل فرمائی تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے راستہ بنا دیا ہے اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد و عورت کے لیے سو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ مرد و عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے سے مار دینا۔ ‘‘[1]
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ زانیوں کو عملاً صرف سزائے رجم دی اور سو کوڑے (جو چھوٹی سزا ہے) بڑی سزا میں مدغم ہوگئے اور اب شادی شدہ کے لیے صرف رجم ہے۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین اور عہدِ صحابہ میں بھی یہی سزا دی گئی اور بعد میں تمام امت کے فقہا، علما اور محدثین بھی اسی کے قائل رہے اور آج تک قائل ہیں۔
غامدی گروہ کا انحراف اور آیت کے مفہوم میں گھپلے:
عمار صاحب نے، جو دراصل غامدی و فراہی فکر کے نقیب اور وکیل ہیں، مذکورہ دونوں آیات کے 14 سو سالہ متفقہ مفہوم سے انحراف کر کے کہا ہے:
’’داخلی قرائن کی روشنی میں (پہلی آیت میں) زنا کا اتفاقیہ ارتکاب کرنے والے عام مجرم نہیں ہیں، بلکہ اس کو پیشہ اور عادت کے طور پر اختیار کر لینے والے مجرم زیرِ بحث ہیں اور اس میں ان پیشہ ور بدکار عورتوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کی تدبیر بیان کی، جب کہ دوسری آیت میں یاری آشنائی کا مستقل تعلق قائم کر
[1] صحیح مسلم، کتاب الحدود، رقم الحدیث :۱۶۹۰