کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 365
اُن ہی کی محفل سنوارتا ہوں، چراغ میرا ہے رات ان کی
اُن ہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں، زباں میری ہے بات اُن کی
کے مصداق ہے۔ اﷲ تعالیٰ ’ مَن شَذَّ، شُذّ۔ ۔ ۔ ‘ کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے۔
اب ہم پہلے صحابۂ کرام اور مفسرینِ اُمت کی تفسیر کی روشنی میں ان دو آیات کا وہ مفہوم بیان کرتے ہیں جو سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سمیت تمام ائمۂ تفاسیر نے تھوڑے سے جزوی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے بعد وہ چار گھپلے یا انحراف بیان کریں گے، جن کا ارتکاب عمار صاحب نے غامدی کی اندھی تقلید میں کیا ہے۔
1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ’ اَلْفَاحِشَۃ ‘ سے مراد زنا ہے۔
2۔ اس کی مرتکب عورت کے لیے سزا کا بیان ہے۔
3۔ یہ ابتدائے اسلام میں جرمِ زنا کی عبوری سزا ہے۔
4۔ اس کی مستقل سزا کا وعدہ ہے۔
5۔ مطلق زنا کی سزا ہے، اس کا ارتکاب کسی نے ایک دفعہ کیا ہے یا زیادہ مرتبہ، اس کا نہ آیت میں ذکر ہے اور نہ اس کی وجہ سے زناکاروں کی دو قسموں اور ان کی الگ الگ سزاؤں کا ذکر ہے۔
6۔ ثبوتِ جرم کے لیے چار مسلمان مردوں کی گواہی ضروری ہے۔
دوسری آیت (16) میں تثنیہ مذکر کے صیغے میں اسی ’ اَلْفَاحِشَۃ ‘ کے مرتکبین کی سزا کا ذکر ہے، کیوں کہ ’ یَأْتِیَانِھَا ‘ میں ضمیر مونث کا مرجع ’اَلْفَاحِشَۃ ‘ہی ہے۔ اس لیے اس سے مراد زنا کار مرد ہے، اگرچہ بعض نے ان دو سے وہ دو مرد مراد لیے ہیں، جو اغلام بازی (قومِ لوط والی بے حیائی) کرتے ہیں اور بعض نے اس سے باکرہ مرد و عورت مراد لیے ہیں اور پہلی آیت سے محصنات (شادی شدہ عورتیں)۔ لیکن راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے زنا کار مرد مراد ہے۔ تثنیہ کا صیغہ مرد اور عورت کے اعتبار سے ہے اور عربی میں عورت اور مرد دونوں کے لیے تثنیہ مذکر کے صیغے کا استعمال جائز ہے۔ گویا پہلی آیت میں عورت کی سزا کا ذکر ہے کہ ثبوتِ جرم کی صورت میں اس کو گھر میں محبوس رکھو، گھر سے باہر نہ جانے دو، یہاں تک کہ اس کو موت آجائے یا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اور سزا کا حکم نازل ہو جائے اور دوسری آیت میں زنا کار مرد کی