کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 364
الفاظ میں حسبِ ذیل ہے: ’’مولانا محترم نے ہماری اس رائے پر تنقید کرتے ہوئے۔ ۔ ۔ یہ نکتہ اُٹھایا ہے کہ اس توجیہ کو ماننے کی صورت میں یہ تصور کرنا پڑے گا کہ ایک ’’انتہائی صالح مسلمان معاشرے میں، جس کی تربیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہوں، اس میں ایسے مسلمان افراد بھی ہوں، جو بدکاری کے اڈے چلا رہے ہوں یا جن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کر چکا ہو۔ ‘‘ مولانا کا فرمانا ہے: ’’کوئی بھی باغیرت مسلمان اس تصور کو اپنے دل و دماغ میں جگہ نہیں دے سکتا۔ ‘‘[1] یہ کون سے مولانا ہیں؟ عمار صاحب نے نام ذکر نہیں کیا۔ یہ کتاب ’’مقامِ عبرت ‘‘ بھی ہماری نظر سے نہیں گزری کہ ان کا تعارف ہوجاتا۔ اس لیے ہم ’’ مَنْ قَالَ ‘‘ کی بحث کو چھوڑ کر ’’ مَا قَالَ ‘‘ پر گفتگو کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں فاضل معترض کا اعتراض درست ہے اور وہ توہین کا الزام لگانے میں حق بہ جانب ہیں۔ اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: سورت نساء کی آیات (15۔ 16) کی غلط تفسیر اور اس کا صحیح مفہوم: عمار صاحب نے سورت نساء کی محولہ آیات کا جو مفہوم بیان کیا ہے، محترم معترض کے الزام، صحابۂ کرام پر طعن و تشنیع کی بنیاد اسی مفہوم اور تفسیر پر ہے اور یہ غامدی و فراہی گروہ کی وہ تفسیر ہے، جو اُمتِ مسلمہ میں پہلی مرتبہ اختیار کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی بنیاد بھی احادیثِ صحیحہ و صریحہ اور قویہ کے انکار پر ہے۔ نیز غامدی صاحب کا اپنا اعتراف بھی ہے کہ وہ اس رائے میں چودہ صد سالہ اُمتِ مسلمہ کی پوری تاریخ میں منفرد ہیں، حتیٰ کہ اپنے ’’استاذ امام ‘‘ امین اصلاحی سے بھی مختلف۔ یہ بات انھوں نے شرعی عدالت میں مسئلہ شہادتِ نسواں پر بحث کرتے ہوئے بڑے فخر سے راقم کی موجودگی میں کہی تھی۔ گو بعد میں انھوں نے اپنی تحریر میں اس کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ عمار صاحب کی رائے دراصل وہی ہے جو غامدی صاحب نے اختیار کی ہے، جو ؎
[1] مقامِ عبرت (ص: ۳۰) (الشریعہ)