کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 363
ان پر حد ہی جاری نہ فرماتے۔ اگر وہ پیشہ ور بھی ہوتے تب بھی آپ ان پر حد جاری نہ فرماتے، کیوں کہ پھر یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ یہ مسلمان نہیں ہیں، بلکہ منافق ہیں۔ اس لیے کہ وہ دورِ رسالت کے مسلمان تھے جن سے بہ تقاضائے بشریت غلطی کا صدور تو ممکن تھا، جیسا کہ صدور ہوا بھی، لیکن اس کا تصور بھی ایمان کے منافی ہے کہ انھوں نے زنا کاری کے اڈے کھولے ہوئے اور چکلے قائم کیے ہوئے تھے۔ (نعوذ باﷲ من ذلک) اس قسم کی بے بنیاد الزام تراشی اور تہمت طرازی ع
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
اور اﷲ تعالیٰ نے یہ ’’حوصلہ ‘‘ فراہی گروہ کو وافر مقدار میں عطا فرمایا ہے۔ ع
یہ ’’نصیب ‘‘ اﷲ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
محلِ اعتراض، اصل اقتباس:
اس کے بعد عمار صاحب نے اپنی کتاب ’’براہین ‘‘ (ص: 160۔ 162) سے وہ اصل اقتباس نقل کیا ہے، جس سے ان کا مقصد صحابہ پر طعن و تشنیع کے الزام کی نفی ہے، لیکن اس اقتباس سے اس الزام کا بے حقیقت ہونا واضح ہوتا ہے، یا اس کا اثبات ہوتا ہے؟ لیجیے! آپ اصل اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ فرمائیں کہ معترضین کا الزام صحیح ہے یا وہ اس سے پاک ہیں؟
عمار صاحب کا یہ اقتباس حسبِ ذیل ہے:
’’سورت نساء کی آیات (15، 16) میں﴿وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ﴾اور﴿وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا﴾ کا مصداق کون سے زانی ہیں اور پہلی آیت میں خواتین کو الگ ذکر کر کے ان کی سزا الگ بیان کرنے کی وجہ کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ہم نے آیات کے داخلی قرائن کی روشنی میں اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ یہاں زنا کا اتفاقیہ ارتکاب کرنے والے عام مجرم نہیں، بلکہ اس کو پیشہ اور عادت کے طور پر اختیار کرنے والے مجرم زیرِ بحث ہیں اور قرآن نے پہلی آیت میں پیشہ ور بدکار عورتوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کی تدبیر بیان کی، جب کہ دوسری آیت میں یاری آشنائی کا مستقل تعلق قائم کر لینے والے جوڑوں کی تادیب و تنبیہ کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ ‘‘
جن صاحب نے عمار صاحب کے اس اقتباس سے صحابہ کی توہین کا مفہوم اَخذ کیا ہے، وہ عمار صاحب کے