کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 362
عہدِ رسالت میں کسی منافق کو سزا نہیں دی گئی: جہاں تک عہدِ نبوی کے منافقین کا معاملہ ہے، ان کے عمل و کردار کی بابت بہت سی ایسی باتیں روایات میں ملتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں، لیکن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دنیوی مواخذہ نہیں فرمایا، ان کے لیے کسی تعزیر یا سزا کا اہتمام نہیں کیا۔ حتیٰ کہ حرمِ رسول، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر انھوں نے تہمت دھر دی، جو واقعۂ افک کے نام سے مشہور ہے، اس کا سرغنہ رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبیّ تھا، اس کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار بعض مخلص مسلمان بھی ہوگئے، جیسے سیدنا حسان بن ثابت، سیدنا مسطح بن اثاثہ، سیدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم اور آیتِ براء ت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں پر حدِ قذف بھی جاری فرمائی۔ (سنن الترمذي، رقم الحدیث: 3181، و دیگر کتبِ حدیث) لیکن عبداﷲ بن ابی اور اس کے ساتھیوں میں سے کسی پر بھی قذف کی یہ حد جاری نہیں فرمائی۔ علاوہ ازیں بالخصوص اسی عبداﷲ بن اُبی کی بابت روایات میں صراحت ہے کہ اس نے لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں جن سے وہ زنا کاری کروا کے پیسے لیا کرتا تھا۔ یہ دو لونڈیاں تھیں، انھوں نے آکر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، جس پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَلاَ تُکْرِھُوا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ﴾(النور: 33) ’’اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ ‘‘[1] فراہی گروہ کے ’’امامِ ثانی ‘‘ نے لکھا ہے کہ آٹھ لونڈیاں تھیں، جن سے وہ کمائی کے لیے پیشہ کرواتا تھا۔ (تدبرِ قرآن) اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو مذکورہ آیت کے ذریعے سے تنبیہ فرما دی، حالاں کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، لیکن خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداﷲ بن ابی یا اس کی لونڈیوں کی سزا و تعزیر کا کوئی حکم نہیں دیا۔ ان دو مثالوں کے بیان سے مقصود عمار صاحب کی اس کج روی کی وضاحت ہے جس کا اظہار وہ زیرِ بحث صحابی اور صحابیہ کو، نعوذ باﷲ، منافق باور کرانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اگر وہ واقعی منافق ہوتے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] صحیح مسلم، کتاب التفسیر:۲۶، ۲۷