کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 361
بدمعاشی اور عادی زناکاری کا جو جرم منسوب کر رہے ہیں، اس کا بھی کوئی ثبوت آپ نہ پیش کر سکے ہیں اور نہ کر ہی سکتے ہیں۔ پھر اسے توہین اور طعن و تشنیع نہ کہا جائے تو کیا ان کی مدحت و منقبت کہا جائے؟ پھر تو شیعہ حضرات کی بھی صحابۂ کرام پر طعن و تشنیع کا جواز ثابت ہوجاتا ہے، اگر وہ بھی یہ کہیں کہ ہم ارادتاً اور دیدہ و دانستہ ایسا نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کے یہ یہ جرائم ہیں اور آپ کے گروہ کی طرح وہ بھی بے بنیاد ’’دلائل ‘‘ پیش کر دیں، جیسا کہ وہ کرتے ہیں۔ ایسے ’’پوچ دلائل ‘‘ سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آپ کی پالیسی تو پہلے ہی ان کے ’’کفریہ عقائد ‘‘ کو نظر انداز کرنے کی ہے، کیا اب آپ ان کو صحابۂ کرام کی توہین سے بھی ’’پاک ‘‘ قرار دے دیں گے؟ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین۔ عمار صاحب آگے فرماتے ہیں: ’’میرے جس اقتباس کو صریح بددیانتی سے کام لیتے ہوئے اور میری طرف سے وضاحت کے باوجود مسلسل صحابہ پر طعن کی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل عہدِ نبوی کے منافقین سے متعلق ہے اور اس میں بھی طعن و تشنیع کے پہلو سے نہیں، بلکہ قرآن مجید کی ایک آیت کا مصداق متعین کرنے کے ضمن میں ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے، جو بدکاری کو بطورِ عادت اختیار کیے ہوئے تھے۔‘‘ ہم عرض کریں گے کہ الزام لگانے والے بددیانتی کا ارتکاب قطعاً نہیں کر رہے ہیں، بلکہ آپ کے استدلال کا پائے چوبیں خود آپ کے استدلال کی بے تمکینی کو بھی ظاہر کر رہا ہے اور صحابہ پر طعن و تشنیع کے الزام کا اثبات بھی۔ آپ نے اس وضاحتیٰ اقتباس میں بھی ان پاک باز ہستیوں کو ’’منافقین ‘‘ قرار دیا ہے اور آیتِ محاربہ کا بلا دلیل مصداق قرار دے کر فساد فی الارض کا مرتکب بھی۔ حالاں کہ ان دونوں باتوں کا ثبوت آپ اور آپ کے سارے گروہ کے محققین مل کر بھی قیامت تک پیش نہیں کر سکتے۔ یہ آیتِ محاربہ آپ کے گروہ پر ہی نازل نہیں ہوئی ہے، یہ چودہ سو سال سے قرآنِ مجید میں موجود ہے۔ سیکڑوں مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کا مفہوم بیان کیا ہے۔ آپ کسی ایک مفسر یا قرآنی احکام کے جمع و تخریج کرنے والے ’’احکام القرآن ‘‘ کے کسی ایک مصنف کا نام بتلا دیں، جس نے آیتِ محاربہ میں منافقین کو بالعموم اور مذکورہ صحابہ و صحابیہ کو بالخصوص اس آیت کا اور اس کی سزا کا مصداق قرار دیا ہو۔