کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 359
ایک اور سوال: پھر عمار صاحب سے یہ بھی سوال ہے کہ سنتِ ثابتہ، شریعت کا مقرر کردہ حکم، امرِ منصوص ہے یا اجتہادی امر؟ اگر یہ اجتہادی معاملہ ہے اور آپ اس میں اجتہاد فرما رہے ہیں تو پھر یہ امرِ منصوص تو نہ رہا اور ایک اجتہادی معاملے کو نہ سنتِ رسول کہا جاتا ہے اور نہ شریعت کا مقرر کردہ حکم، جب کہ آپ خود اسے سنتِ ثابتہ بھی مان رہے ہیں اور شریعت کا مقرر کردہ حکم بھی اور اگر یہ امرِ منصوص ہے تو پھر آپ کو یا آپ کے ائمہ کو یا کسی بھی اور شخص کو اجتہاد کا حق حاصل ہے؟ نہیں ہے، یقیناً نہیں ہے۔ پھر آپ کو رجم کی سنتِ ثابتہ اور شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا میں اجتہاد کر کے اس کو صواب دیدی سزا میں منتقل کرنے کا حق کس طرح حاصل ہوگیا ہے؟ اور اجتہاد بھی نہایت انوکھا اور دنیائے اجتہاد میں نرالا کہ اس سزا کو یوں سمجھ لیا جائے یا ووں سمجھ لیا جائے۔ گویا حدِ رجم کے شرعی حکم کی حیثیت، جو چودہ سو سال سے اُمتِ مسلمہ میں مسلّم چلی آرہی ہے، ابھی تک فراہی گروہ کے نزدیک غیر متعین ہے اور اب اس کے تعین کی کھکھیڑ اس گروہ کے سر آپڑی ہے، جس کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے یہ گروہ مغز ماری کر رہا ہے، لیکن ان کی مغز ماری سے ان کا اپنا ہی ایک لائق ترین شاگرد بھی مطمئن نہیں ہوسکا اور اس نے ان کے فرسودہ ‘‘دلائل ‘‘ کے بجائے بہ زعم خویش حدِ رجم کے انکار کے لیے نئے ’’دلائل ‘‘ تراش کے بڑا تیر مارا ہے۔ گویا ؎ ہم پیرویِ قیس نہ فرہاد کریں گے ہم طرزِ جنوں اور ہی ایجاد کریں گے الحمد ﷲ ہم نے حدِ رجم کی مستقل شرعی سزا کے بارے میں عمار صاحب کے اس سزا کے انکار پر مبنی اُس غیر منطقی موقف کے بودے پن اور بطلان کو واضح کر دیا ہے، جو ان کے تضاد اور ذہنی کشمکش کا غماز ہے۔ اسی بے بنیاد موقف کے اثبات کے لیے یہ گروہ سیدنا ماعز بن مالک کو غنڈہ اور غامدیہ نامی صحابیہ کو قحبہ باور کرانے پر قلم و قرطاس کی تمام توانائیاں صَرف کر رہا ہے، حالاں کہ ان کی طہارت و پاکیزگی پر شک نہیں، رشک کیا جا سکتا ہے کہ دونوں سے یہ گناہ سرزد ہوا تو از خود آکر طہارت کی خاطر سزا کے لیے اصرار کیا۔ کیا یہ پیشہ ور بدمعاشوں اور چکلے چلانے والے مردوں اور عورتوں کا کام ہوسکتا ہے؟ اور کیا عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ میں چکلوں کا