کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 357
سے اس کو ثابت کرنے کے لیے (تاکہ انحراف کا الزام ان پر عائد نہ ہوسکے) ’’اقرار نما ‘‘ عجیب و غریب تعبیر فرمائی، جو بباطن انکار ہی ہے، لیکن بہ اندازِ دگر یا بہ لطائف الحیل۔ گویا سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی ان کا خاندانی بھرم بھی قائم رہ جائے اور استاذِ گرامی (غامدی) کے موقف پر بھی کوئی زد نہ آئے۔ اسے کہتے ہیں: وفاداری بشرطِ استواری! اس سارے جنجال یا گورکھ دھندے کی اصل وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے قرآنی تبیین کے منصبِ رسالت سے انکار اور اپنے لیے اس کا اثبات۔ اب خود اس منصب پر قابض ہو کر رجم کو حدِ شرعی سے نکال کر اور اسے تعزیزی، یعنی صواب دیدی سزا قرار دے کر گویا ہوا میں گرہ لگانے یا آسمان میں تھگلی لگانے کی لا حاصل کوششیں کر رہے ہیں، جو پورا ’’ٹِل ‘‘ لگانے کے باوجود بار آور ہونے والی نہیں۔ ﴿وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا﴾(بني إسرائیل: 88) عمار صاحب سے ایک سوال: انکارِ رجم کے اثبات کے لیے (کیوں کہ حد کے بجائے اس کو تعزیر باور کرانا صریحاً انکار ہے) عمار صاحب کی ’’نئی اجتہادی کاوش ‘‘ کی روشنی میں ہم ان سے ایک سوال کرتے ہیں کہ آپ نے پہلے پیرے یا نکتہ ’’نمبر 1 ‘‘ میں لکھا ہے: ’’سنگساری نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ثابت ہے، شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا ہے۔ ‘‘ ان باتوں کا علم آپ کو کہاں سے حاصل ہوا؟ قرآن کریم سے؟ یا کسی کتاب سے ؟ یا براہِ راست آپ کو وحیِ جلی یا خفی کے ذریعے سے آگاہ کیا گیا ہے؟ یا آپ کو سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والا کوئی علم یا علم لدنی حاصل ہے؟ ظاہر بات ہے آپ کا جواب، سوائے ایک بات کے، سب کی بابت نفی میں ہو گا اور وہ ایک بات ہے، کتاب والی۔ یعنی سزائے رجم کا سنت وغیرہ ہونے کا علم آپ کو کتاب سے ہوا ہے اور وہ کتاب بھی حدیث ہی کی کتاب یا کتب ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ حدیث کی کتاب یا کتبِ حدیث میں سزائے رجم کی نوعیت و کیفیت کا بیان ہے یا نہیں؟ یعنی یہ سزا کس جرم پر دی گئی یا کس جرم کی بتلائی گئی ہے؟ مطلق زنا کے مجرم کے لیے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ؟ یا صرف زانیِ محصن (شادی شدہ) کے لیے؟ یا صرف غنڈوں، بدمعاشوں اور فساد