کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 356
عزیزِ گرامی! حقائق مفروضوں سے ثابت نہیں ہوتے۔ فراہی گروہ سے پہلے نہ کسی نے حدِ رجم کا انکار کیا ہے نہ احادیثِ رجم کو مشکوک قرار دیا ہے اور نہ اس حد کو قرآن کے خلاف یا اس کے متعارض سمجھا ہے تو پھر وہ اس کی توجیہ کیوں پیش کرتے؟ یہ سب خود آپ کے مفروضے (خود ساختہ باتیں) ہیں۔ اس طرح جھوٹے دعوے کر کے فراہی توجیہ کی گمراہی کو کم نہ کریں اور نہ اپنی آنے والی توجیہ کا جواز تلاش کریں کہ وہ بھی سوائے گمراہی کے کچھ نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں عمار صاحب کی انوکھی توجیہ: ’’اس لیے علمی و نظری طور پر اس مسئلے میں اس بات کی بھی گنجایش ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا کو اصل اور حقیقی سزا قرار دیتے ہوئے رجم کو اضافی اور صواب دیدی سزا قرار دیا جائے اور اس کے برعکس، اس نقطۂ نظر کی بھی کہ قرآن کے ظاہری بیان کو قطعی اور فیصلہ کن نہ سمجھتے ہوئے سنت کو شرعی حکم کا مکمل بیان تسلیم کیا جائے۔ ‘‘[1] سبحان اﷲ، ماشاء اﷲ، چشمِ بددور! کیا خوب توجیہ ہے؟ اور وہ بھی ظن و تخمین کے انداز میں۔ یہ، یا یہ؟ جب یقین کو چھوڑ کر آدمی مفروضوں یا ظن کے پیچھے دوڑے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارے تو نتیجہ: ﴿ظُلُمٰتٌ مبَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ﴾ کے سوا کیا نکل سکتا ہے؟ عزیز موصوف اور ان کے ہمنواؤں نے ایک طے شدہ مسئلے کو خود ہی اُلجھا دیا ہے، اب اس کو سلجھانے کے لیے ڈور کا سرا ہی ان کے ہاتھ نہیں آرہا ہے، اس کو حل کرنے کے لیے ان کے اساتذہ یا ’’ائمہ ‘‘ نے قرآن میں معنوی تحریف کی جسارت بھی کر لی، جلیل القدر صحابی کو بدمعاش اور غنڈہ بھی قرار دے دیا، ایک پاکباز صحابیہ کو پیشہ ور زانیہ اور ڈیرہ دارنی باور کرایا، اﷲ تعالیٰ کے بیان کردہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’تبیینِ قرآنی ‘‘ کے منصب کا انکار کیا اور اس منصبِ رسالت کو (نعوذ باﷲ) قرآن کی عظمت کے منافی قرار دیا، صحابہ و تابعین سمیت تمام امت کے ائمہ، فقہا اور محدثین سب کو قرآن و حدیث سے بے بہرہ ثابت کر دیا، لیکن اتنی کد و کاوش کے باوجود ان کے ایک ’’تلمیذِ رشید ‘‘ نے انکارِ رجم کے لیے ان سب کاوشوں کو مسترد کر کے ایک گو مگو والے ’’نئے اجتہاد ‘‘ کے ذریعے
[1] الشریعہ، ص: ۱۸۰۔ ۱۸۱، جون ۲۰۱۴ء