کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 355
مابین تطبیق و توفیق کے لیے کوئی توجیہ ہی پیش کی ہے۔ جب امت نے دونوں حکموں کو متعارض ہی نہیں سمجھا تو تطبیق و توفیق کے لیے وہ کوئی علمی توجیہ کس طرح پیش کرتی؟ یہ تو عمار صاحب کا اسی طرح کا ایک بہت بڑا جھوٹ ہے، جس طرح ان کے استاذ نے یہ شاہکار جھوٹ بولا ہے کہ ان (غامدی) کے اور ائمہ سلف کے موقف میں یک سرِ مو فرق نہیں ہے۔ اگر عمار صاحب اپنے دعوے میں سچے ہیں تو بتلائیں کہ کیا کیا توجیہات پیش کی گئی ہیں؟ کس کس نے پیش کی ہیں؟ اور وہ کن کن کتابوں میں ہیں؟ اس لیے عمار صاحب کا یہ کہنا: ’’زمانی لحاظ سے آخری توجیہ مولانا اصلاحی اور بعض دیگر معاصر اہلِ علم نے پیش کی ہے۔ ‘‘ سراسر فریب اور دھوکا ہے۔ یہ آخری توجیہ نہیں ہے، بلکہ سب سے پہلی توجیہ ہے، جو حدِ رجم کے انکار کے لیے کی گئی ہے اور اس گمراہی کے بانی مولانا فراہی ہیں نہ کہ مولانا اصلاحی۔ ہاں مولانا اصلاحی نے اس کو بال و پَر مہیا کر کے اس فتنے میں طاقتِ پرواز پیدا کی ہے اور معاصر اہلِ علم سے مراد، ان کا حلقہ تلمذ (غامدی وغیرہ) اور دیگر منکرینِ حدیث ہیں اور یہ دونوں طبقے یا حلقے اُمتِ مسلمہ کے دھارے سے الگ اور حدیث کے ماخذِ شریعت ہونے کے منکر ہیں۔ اس لیے نہ فراہی گروہ سے وابستہ کوئی شخص اور نہ ان کے معاصر انکارِ حدیث کے علم بردار، اس قابل ہیں کہ ان کی رائے یا نظریے کو اُمتِ مسلمہ کے علما و فقہا اور ائمہ کی فقہی کاوشوں کے ساتھ یا بالمقابل پیش کیا جائے۔ ان دراز قدوں کی صف میں ان بونوں کا کیا کام اور کیا مقام؟ باقی رہی ان کی فساد فی الارض یا محاربہ والی توجیہ، وہ توجیہ نہیں قرآن کی معنوی تحریف اور انکارِ حدیث کا شاخسانہ ہے، جس پر ہم گذشتہ صفحات میں تفصیل سے گفتگو کر آئے ہیں۔ اب عمار صاحب کا تیسرا پیرا یا نکتہ ملاحظہ فرمائیں، جس میں وہ نہایت ’’مجتہدانہ ‘‘ شان میں نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں: 3۔ ’’ راقم کے طالب علمانہ مطالعے کے مطابق قرآن کے ظاہری حکم اور سنت کے بیان کردہ اضافے کے مابین تطبیق کے ضمن میں پیش کی جانے والی کوئی بھی توجیہ علمی اشکالات سے خالی نہیں۔ ‘‘