کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 354
اس پیرے یا نمبر 2 نکتے سے بڑی فنکارانہ چابکدستی یا نہایت معصومیت سے پہلے پیرے کی مکمل نفی کر دی گئی ہے۔
ذرا سوچیے! رجم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، خلفائے راشدین کے فیصلے بھی اس کے مطابق ہیں اور یہ شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا بھی ہے۔ کیا یہ سزا پھر بھی قرآن کے متعارض ہی ہے؟
اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سزا قرآنی حکم کے خلاف دی، خلفائے راشدین بھی قرآن کے حکم کو نہیں سمجھ سکے اور پوری اُمتِ مسلمہ بھی قرآنی حکم کو نہیں سمجھ سکی اور عمار صاحب سمیت پوری اُمت اس سزا کو شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا سمجھتی آئی ہے اور آج بھی سمجھ رہی ہے!!
حدِ رجم کو قرآن پر اضافہ اور ستم بالائے ستم پھر اسے قرآن سے متعارض قرار دینا، یہی تو وہ سب سے بڑی گمراہی ہے جس کے بطن سے حدِ رجم کے انکار کے نومولود نظریے کا ظہور ہوا ہے۔ اُمتِ مسلمہ اس سنتِ رجم کو قرآن پر اضافہ قرار نہیں دیتی، بلکہ ﴿لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ﴾(النحل: 44) کے تحت قرآن کے عطا کردہ منصبِ رسالت کا تقاضا سمجھتی ہے، جس کی رُو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح قرآن کے مجمل احکام کی تفصیل بیان فرمائی ہے (نماز کس طرح پڑھنی ہے، زکات کس طرح اور کب دینی ہے، وغیرہ وغیرہ) اسی طرح قرآن کے عمومات کی تخصیص بھی فرمائی ہے۔ قرآن میں زنا کی سزا عام تھی، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خاص کر دیا کنوارے زانیوں کے لیے اور شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا مقرر فرمائی۔ یہ نہ قرآن پر اضافہ ہے اور نہ قرآن سے متعارض، بلکہ قرآن کے عین مطابق اور قرآن ہی کی طرح واجب الاطاعت ہے۔ اسی لیے آپ نے اپنی مقرر کردہ سزائے رجم کو کتاب اﷲ ہی کا حکم قرار دیا ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
پھر عزیز موصوف کا یہ کہنا:
’’ان دونوں بظاہر متعارض حکموں کے مابین تطبیق و توفیق یا علمی و فقہی درجہ بندی کے لیے چودہ صدیوں میں مختلف علمی توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ ‘‘
دراصل انکارِ رجم کا جواز مہیا کرنا ہے، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ چودہ صدیوں میں سے کسی بھی امام، فقیہ اور عالم نے (سوائے فراہی صاحب اور ان کے ہم نواؤں کے) نہ حدِ رجم کو قرآن کے متعارض حکم سمجھا ہے اور نہ اس کے