کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 353
چناں چہ آپ پہلے ان کا پورا اقتباس ملاحظہ فرمائیں، پھر ہماری گزارشات۔ إن شاء اﷲ آپ ہماری باتوں کی صداقت کے قائل ہوجائیں گے، بشرطیکہ فراہی یا غامدی گزیدہ نہ ہوں۔ عمار صاحب فرماتے ہیں: 1۔ ’’ زنا کے مجرموں کو سنگسار کیا جانا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ثابت ہے اور اسے شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں خوارج کا، قرآن میں رجم کی سزا مذکور نہ ہونے کی بنا پر اس کا سرے سے انکار کر دینے کا موقف غلط اور ناقابلِ قبول ہے۔ ‘‘ یہ پہلا نکتہ ہے جو عزیز موصوف نے بیان کیا ہے، اس میں خاندانی نسبت کے بھرم کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بات اگر اسی پیرے تک محدود رہتی تو اس کے بعد، اگر مگر، کی کوئی گنجایش نہیں رہتی، کیوں کہ جب موصوف نے اس کا سنتِ نبوی ہونا، خلفائے راشدین کے فیصلوں کا بھی اس کے مطابق ہونا اور اس کا شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا کی حیثیت حاصل ہونا تسلیم کر لیا ہے تو پھر اگلے اور نکتوں میں اس سے انحراف اور اس کی مذکورہ حیثیتوں کو سبوتاژ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، جیسا کہ موصوف نے کیا ہے؟ کیا ایک مسلمان کے لیے کسی ادنیٰ سے درجے میں بھی اس کا کوئی جواز ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، خلفائے راشدین کے فیصلوں اور شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا کو بہ لطائف الحیل ختم کرنے کی مذموم سعی کرے۔ یہ مذموم سعی ہی وہ غامدیت ہے، جس کا اظہار انھوں نے اگلے نمبروں میں کیا ہے۔ اس غامدی وکالت نے ان میں اس سے انحراف کی جراَت پیدا کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: 2۔ ’’ قرآن میں زانی کے لیے صرف سو کوڑے کی سزا ذکر کی گئی ہے، جب کہ سنت سے اس پر رجم کی سزا کا اضافہ ثابت ہے۔ ان دونوں بظاہر متعارض حکموں کے مابین تطبیق و توفیق یا علمی و فقہی درجہ بندی کے لیے چودہ صدیوں میں مختلف علمی توجیہات پیش کی گئی ہیں، جن میں سے زمانی لحاظ سے آخری توجیہ مولانا اصلاحی اور بعض دیگر معاصر اہلِ علم نے پیش کی ہے۔ ان کی رائے کے مطابق رجم کی سزا اصلاً زنا کی نہیں، بلکہ فساد فی الارض اور محاربہ کی سزا ہے اور اسے زنا کے عادی مجرموں یا اوباشوں پر نافذ کیا جانا چاہیے، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ ‘‘