کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 352
حدِ رجم کے انکار کے لیے عمار صاحب کی چوں کہ، چناں چہ
ان تمہیدی گزارشات کے بعد اب ہم عمار صاحب کی توضیحات میں سے فی الحال چند اہم توضیحات پر اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں۔ باقی محلِ نظر توضیحات کو ہم فی الوقت نظر انداز کر رہے ہیں۔ اﷲ نے توفیق دی تو پھر کسی وقت ان پر بھی گفتگو ہو سکے گی یا کوئی اور صاحبِ علم شاید ان کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا لے۔
ان میں ایک اہم مسئلہ حدِ رجم کے انکار کا ہے، جس کو اس گروہ کے ’’امامِ اول ‘‘ نے تیرہ صدیوں کے بعد قرآن کی آیتِ محاربہ میں معنوی تحریف کر کے چودھویں صدی میں اختیار کیا، ورنہ اس سے پہلے تک یہ مسئلہ اجماعی اور متفق علیہ چلا آرہا تھا اور الحمدﷲ اب تک متفق علیہ ہے۔ لیکن فراہی صاحب کی قرآن کریم میں معنوی تحریف کے بعد سے ان کے تلامذہ در تلامذہ نے اس اجماعی مسئلے کو تختۂ مشق بنا رکھا ہے، حالاں کہ اس انکار کی کوئی دلیل اس گروہ کے پاس نہیں ہے سوائے قرآن کی معنوی تحریف اور دیگر بعض مفروضات کے۔ جیسا کہ اس سے قبل ہم غامدی صاحب کے افکار کے ضمن میں اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں اور مولانا فراہی و اصلاحی صاحب کے افکار و خیالات پر نقد و نظر میں بھی ہم إن شاء اﷲ اس پر مزید گفتگو کریں گے۔
عمار صاحب بھی بدقسمتی سے اس گروہ کے گمراہانہ افکار کا شکار ہوگئے ہیں، لیکن چوں کہ وہ ایک دینی و علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے وہ اس مسئلے میں بیچ کی راہ نکالنے کی فکر میں ہیں، جس سے غامدی صاحب کا حقِ شاگردی و وکالت بھی ادا ہو جائے اور خاندان کی روایات کا بھی کچھ بھرم رہ جائے۔ اس لیے وہ ؎
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آ تے بھی نہیں
نیمے دروں، نیمے بروں کی تصویر بنے ہوئے ہیں، لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور وہ ان کی اس موضوع پر تضاد بیانی اور ژولیدہ فکری کو بھانپ رہے ہیں۔ الحمد ﷲ۔