کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 350
موضوعات پر بھی ’’تحقیق ‘‘ نکلے۔ ‘‘[1] فاضل موصوف کی یہ حقیقت پسندانہ اور دردمندانہ گزارش پڑھ کر ایک شعر کا مصرع لوحِ حافظہ پر اُبھر آیا ع مری تعمیر میں مضمر ہے ایک صور ت خرابی کی لیکن عمار صاحب کی متجددین اور منحرفین کی تائید و حمایت میں نکلنے والی تحریروں میں تو ایک ہی خرابی نہیں، خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ ان تعمیر نما تخریبی کاوشوں سے: ٭ فتنۂ انکارِ حدیث کو تقویت مل رہی ہے۔ ٭ ائمۂ سلف اور صحابہ و تابعین کی تشریح و تعبیر کے مقابلے میں من مانی تشریح و تعبیر کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ٭ منصوص (قرآن و حدیث کے واضح) احکام کے مقابلے میں ’’اجتہاد ‘‘ کے نام پر نئے احکام وضع کرنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ ٭ مسلماتِ اسلامیہ اور متواتر سنتوں کا انکار کیا جا رہا ہے۔ ٭ قرآن کی ’’عظمت ‘‘ کے نام پر احادیث کو کنڈم کیا جا رہا ہے۔ ٭ احادیث کی غیر محفوظیت کے بے بنیاد پروپیگنڈے کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٭ حتیٰ کہ قرآنِ کریم میں معنوی تحریف تک کی شوخ چشمانہ جسارت کی جا رہی ہے۔ ٭ صحابۂ کرام کی ردائے عظمت و تقدس کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ ٭ قرآنی تشریح کے منصبِ رسالت پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ ٭ اور بہ زعم خویش ’’مجتہد ‘‘ بننے والے یہ منصبِ رسالت خود اپنے لیے خاص کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ آیاتِ قرآنی کی ایسی ایسی تاویل کر رہے ہیں کہ بقول علامہ اقبال ؎ ولے تاویل شاں در حیرت انداخت خدا و جبریل و مصطفی را
[1] الشریعہ، ص: ۲۶، ستمبر ۲۰۱۴ء