کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 348
سرپرست الفاظ کی ظاہری سختی کو نہ دیکھیں، بلکہ اس اخلاص و ہمدردی اور جذبۂ خیر خواہی کو دیکھیں، جو ان الفاظ میں مضمر اور ان کا مقصد ہے۔ لیجیے! اب مولانا سمیع اﷲ سعدی صاحب کے تبصرے کے جستہ جستہ چند مقامات ملاحظہ فرمائیں: عمار صاحب کے ایک آیت سے غلط استدلال کرنے پر مولانا موصوف لکھتے ہیں: ’’آنجناب (عمار صاحب) نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے، اﷲ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ’’یہودی رہتے ہوئے ‘‘ تم کو یہ گھر دوبارہ اﷲ کی رحمت سے مل سکتا ہے۔ آنجناب کی یہ تفسیر ’’تحریف ‘‘ کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس کی تائید خلف و سلف میں سے کسی ایک مفسر سے دکھا دیں۔ نیز اس آیت کی یہ تفسیر کرنے سے تو خود اس کا اوپر والی آیت کے ساتھ تو کھلا تعارض لازم آتا ہے کہ عام ’’معاصی ‘‘ پر تو اﷲ نے انھیں اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیا، لیکن اﷲ کے آخری پیغمبر کی تکذیب کے باوجود وہ اﷲ کی رحمت کے مستحق ہیں اور انھیں یہ گھر مل سکتا ہے۔ اپنے ذہنی ’’مقدمات ‘‘ سے کتاب اﷲ کی من مانی تفسیر کے نتیجے میں اس طرح کے ’’تضادات ‘‘ اور ’’عجائبات ‘‘ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ صرف عمار صاحب ہی نہیں، بلکہ تمام متجددین، اپنی عقل کی بنیاد پر شریعت کے متفقہ مسائل پر از سرِ نو ’’تحقیق ‘‘ کرنے والے اور سلف کے فہمِ دین کی تغلیط کرنے والوں کی تحریرات ایسی ’’شاہکار ‘‘ ہوتی ہیں۔ ‘‘[1] اس فاضلانہ تنقید کی دوسری قسط میں ’’آخری گزارش، کرنے کا اصل کام ‘‘ کا عنوان قائم کر کے فاضل تنقید نگار لکھتے ہیں: ’’علمی و فکری مسائل پر تحقیق کرنا اور کسی مسئلے کے تمام جوانب و پہلوؤں پر بحث کرنا یقیناً ایک مستحسن امر ہے، لیکن کسی بھی علمی و فکری مسئلے پر بحث سے پہلے اپنے گرد و پیش کے ماحول اور خارجی احوال کو پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے اور یہ دیکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اس ’’تحقیق ‘‘ کے اظہار میں نفع و نقصان کا تناسب کیا ہے؟ خصوصاً اُمتِ مسلمہ آج داخلی اعتبار سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہے، اس پر مستزاد مغربی دنیا
[1] الشریعہ، ص: ۲۶، ستمبر ۲۰۱۴ء