کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 347
مسجدِ اقصیٰ کی تولّیت 1۔ اس میں سب سے پہلے مسجد اقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ ہے۔ یہ حق غامدی گروہ کے نزدیک یہودیوں کو حاصل ہے، جسے مسلمانوں نے ان سے ظلماً غصب کیا ہوا ہے۔ حالاں کہ مسلمانوں کی چودہ صد سالہ علمی تاریخ میں سرے سے اس بحث کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جسے عمار صاحب سمیت اس گروہ نے اُٹھایا ہے اور اس پر اپنا زورِ قلم اور سرمایۂ ’’علم ‘‘ صَرف کر رہا ہے۔ تاہم اس موضوع پر ایک فاضل محقق مولانا سمیع اﷲ سعدی (جامعہ دار القرآن فیصل آباد) کا ایک فاضلانہ اور محققانہ مضمون ’’الشریعہ ‘‘ کے دو شماروں (ستمبر، اکتوبر 2014ء) میں شائع ہوچکا ہے، جس میں عمار صاحب کے سارے مفروضہ و مزعومہ ’’دلائل ‘‘ کی حقیقت نہایت مدلل انداز سے واضح کر دی گئی ہے۔ جزاہ اللّٰہ أحسن الجزاء۔ اس لیے اس پر مزید کچھ لکھنے کی فی الحال ضرورت نہیں ہے، اگر ﴿وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا﴾ کی کیفیت پیدا ہوئی تو إن شاء اﷲ فاضل موصوف اس کے لیے تیار ہوں گے۔ عمار صاحب کی نگارشات کے بارے میں فاضل مذکور کے تأثرات: مسجد اقصیٰ کی تولیت کے بارے میں عمار صاحب کے دلائل پر بحث کرتے ہوئے فاضل مضمون نگار نے جن تاثرات کا اظہار کیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ان کا ذکر یہاں کر دیا جائے، تاکہ اس پہلو کی مزید وضاحت ہو جائے کہ عمار صاحب کے فکری انحراف کے بارے میں ہم نے اب تک جو کچھ عرض کیا ہے اور آیندہ بھی جو کچھ عرض کیا جائے گا، اس میں ہم منفرد اور تنہا نہیں ہیں، بلکہ ہر وہ صائب الفکر اور منہج سلف کا پیروکار، جس نے بھی عمار صاحب کے فکر و نظر کا جائزہ لیا ہے اور ان پر نقد و نظر کیا ہے، اس کے یہی تاثرات ہیں جن کا اظہار ہم نے کیا ہے۔ ان میں لب و لہجہ کی تندی و تلخی اور تبصروں میں سختی کی وجہ بھی وہ دینی غیرت و حمیت ہے جس کو ان افکارِ باطلہ سے سخت ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ تلخ جملوں کا یہ استعمال دراصل اس قلق و اضطراب کا اظہار ہے جس نے ایک جوہرِ قابل کے اپنوں کے بجائے غیروں کے کام آنے پر ہر درد مند دل کو تڑپا رکھا ہے۔ عزیز موصوف یا اس کے