کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 345
خصوصی اشاعت (بابت جون 2014ء) میں پیش کی ہیں، جن میں غامدی فکر کی جھلک نمایاں ہے۔ عمار صاحب کی مجبوری یا ذہنی کشمکش: عمار صاحب کی ایک مجبوری ہے، جسے ذہنی کشمکش بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک متصلب دینی و علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ دوسری طرف غامدی صاحب کی شاگردی کے ناتے سے وہ فکرِ فراہی سے بھی خاصے متاثر ہیں اور ان دونوں نسبتوں کے تقاضے ایک دوسرے سے یکسر مختلف، بلکہ باہم متضاد اور متصادم ہیں، لیکن وہ ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا اور دونوں کے ساتھ نباہ کرنا چاہتے ہیں، جو مشرق و مغرب کو باہم ملانے یا آگ اور پانی کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔ بنا بریں وہ فکرِ غامدی یا فراہی کی اس طرح نوک پلک سنوارنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں کہ متصلب دینی حلقوں کے لیے بھی وہ جرعہ ہائے تلخ ﴿سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ﴾ کے درجے میں آجائیں۔ اس سعیِ لا حاصل یا ذہنی کشاکش یا بہ یک وقت دو بیڑیوں میں پیر رکھنے کی خواہش کی وجہ سے وہ اس صورت حال سے دوچار ہیں، جس کا نقشہ غالب نے ایک شعر میں نہایت کمال خوبی سے کھینچا ہے۔ ؎ ایمان مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مر ے آگے ’’ایمان ‘‘ اور ’’کفر ‘‘ یا کعبہ و کلیسا کی اس کشمکش میں وہ قابلِ رحم حالت میں ہیں۔ ہماری کوشش بھی ہے اور دعا بھی کہ وہ جانِ مجنوں کی طرح اس طرح کی دو کیفیتوں سے نکل آئیں۔ دو گونہ رنج و عذاب است جانِ مجنوں را صحبت ِلیلیٰ و فراقِ لیلیٰ اس کا آسان حل یہ ہے ؎ دو رنگی چھوڑ کر یک رنگ ہوجا سراسر موم ہو جا یا سنگ ہو جا عمار صاحب کے افکار و خیالات پر ایک نظر: اب ہم عمار صاحب کے ان بعض افکار کی سنگینی اور گمراہی کو اﷲ کی توفیق سے واضح کرتے ہیں، جو دراصل