کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 344
ثانیاً: شعار والے قولِ قدیم میں ’’شعار ‘‘ کی حیثیت کو ختم کرنے کی مذموم سعی کر کے قولِ جدید کو بھی، جو صریح گمراہی ہے، تقویت بہم پہنچا دی ہے۔ وہ تو اﷲ بھلا کرے مفتی محمد ارشد صاحب کا، جنھوں نے ’’مصنّف ابن ابی شیبہ ‘‘ کی اس روایت کا بے ثبوت ہونا ثابت کر کے عمار صاحب کے پیدا کردہ اشکال کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی ہے، جس کے ذریعے سے ڈاڑھی کی شعار والی حیثیت کو مشکوک قرار دینے کی مذموم سعی کی گئی ہے۔
اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ تمام منکرینِ حدیث کی طرح، جو بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث اور مجمع علیہ مسائل کو تو نہیں مانتے، لیکن جہاں اور جب ان کو کوئی غیر مستند روایت ایسی مل جاتی ہے، جس سے ان کے کسی خود ساختہ نظریے کی تائید کا پہلو نکلتا ہو تو وہ ان کے لیے قابلِ قبول بھی ہے اور قابلِ حجت بھی!!
عمار صاحب نے بھی چوں کہ انہی عَلم بردارانِ ضلالت کی نہ صرف روش اختیار کی ہوئی ہے، بلکہ ان کے گمراہانہ افکار کے دفاع کا محاذ بھی سنبھالا ہوا ہے تو وہ بھی اس صفت سے متصف ہونے میں پیچھے نہیں رہے ہیں اور یہ خوبی یا یہ جسارت انھوں نے بھی اپنے اندر پیدا کر لی ہے کہ صحیحین کی روایاتِ رجم سے تو وہ جان چھڑانے کے درپے ہیں (جیسا کہ آگے چل کر آپ ملاحظہ فرمائیں گے) لیکن ایک چوتھے درجے کی کتاب سے (جو صحیح و ضعیف اور مرسل و منقطع روایات کا مجموعہ ہے) ایک ایسی روایت سے استدلال کر کے ڈاڑھی کی دینی حیثیت کو مجروح کر رہے ہیں، جو ضعیف، منقطع اور یکسر ناقابلِ حجت ہے۔
بہر حال راقم عرض یہ کر رہا تھا کہ فکرِ غامدی کی گمراہی اس وقت تک پورے طور پر واضح نہیں ہوگی، جب تک ان کے پیشرو ائمۂ ضلال کی اس گمراہی کو بھی واضح نہ کیا جائے، جو غامدی فکر و منہج کی بنیاد ہے اور یہ دو ’’امام ‘‘ ہیں۔ (فراہی اور اصلاحی) اسی طرح غامدی صاحب کے تلامذہ اور ان کے متاثرین ہیں، جنھوں نے غامدی فکر کے دفاع کا فریضہ سنبھالا ہوا ہے، ان کے دفاعی دلائل کا تار و پود بکھیرنا بھی نہایت ضروری ہے، ان میں سرفہرست عمار صاحب ہیں، جو شاید مستقبل میں غامدی مسند کی جانشینی کے اہل تر ثابت ہوں گے۔ اس لیے ہم چند گزارشات عمار صاحب کی ان توضیحات کے سلسلے میں بھی عرض کرنا چاہتے ہیں، جو انھوں نے ’’الشریعہ ‘‘ کی