کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 342
ظاہر بات ہے ان کا پہلا موقف نصوصِ صریحہ (احادیثِ رسول) پر مبنی تھا اور دوسرا موقف ان کے اس ’’اجتہاد ‘‘ کا نتیجہ ہے، جو نصوص سے انحراف کر کے انھوں نے کیا ہے، جب کہ نصوص کے مقابلے میں ’’اجتہاد ‘‘ کی اجازت ہی نہیں ہے، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل صریح گمراہی اور باطل ہے۔ عمار صاحب غامدی فکر کے اس طرح نخچیر ہوگئے ہیں کہ وہ دونوں موقف کی صحت کے قائل ہیں اور وہ ان کو ’’قولِ قدیم ‘‘ اور ’’قولِ جدید ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نصوصِ صریحہ کی جس طرح غامدی صاحب کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ ان کے برعکس موقف اختیار کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اسی طرح عمار صاحب کے نزدیک بھی ایسا کرنا جائز ہے، تب ہی تو انھوں نے یہ راگ الاپا ہے ؎
مستند ہے ان کا فرمایا ہوا
اگر وہ ’’قولِ جدید ‘‘ کو غلط سمجھتے تو وہ اسے قولِ جدید کے بجائے گمراہی قرار دیتے، جیسا کہ فی الواقع وہ گمراہی ہی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ڈاڑھی کے بارے میں غامدی صاحب کا وہ قولِ قدیم بھی یہاں نقل کر دیا جائے، جس کا اظہار انھوں نے 1986ء میں کیا تھا اور خود عمار صاحب نے اسے نقل کیا ہے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں:
’’داڑھی نبیوں کی سنت ہے۔ ملتِ اسلامی میں یہ ایک سنتِ متواترہ کی حیثیت سے ثابت ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان دس چیزوں میں شمار کیا ہے، جو آپ کے ارشاد کے مطابق اس فطرت کا تقاضا ہیں جس پر اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: (آگے آیت:﴿لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ﴾(الروم: 30) اور اس کا ترجمہ ہے)
’’بنی آدم کی قدیم ترین روایت ہے کہ مختلف اقوام و ملل اپنی شناخت کے لیے کچھ علامات مقرر کرتی ہیں۔ یہ علامات ان کے لیے ہمیشہ قابلِ احترام ہوتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنی کسی علامت کو ترک کرتی ہیں نہ اس کی اہانت گوارا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ دین کی بنیاد پر جو ملت وجود میں آتی ہے، اس کی علامات میں سے ایک یہ ڈاڑھی ہے۔ ۔ ۔ ڈاڑھی کی حیثیت بھی (ختنے کی طرح) اس ملت کے شعار کی ہے، چناں چہ کوئی شخص اگر داڑھی نہیں رکھتا تو گویا وہ اپنے عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ ملتِ اسلامی میں شامل نہیں ہے۔ اس زمانے میں کوئی شخص اگر اس ملک کے علَم اور ترانے کو غیر ضروری قرار دے تو ہمارے یہ دانش ور امید