کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 34
کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے جہاں اس اصول کو سامنے رکھا ہے، وہاں ایک اور کسوٹی استعمال کی ہےاور وہ ہے احادیث کو عقل پر پرکھنا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کو سمجھنے کے متفق علیہ اصولوں سے صرف نظرکرنے کی وجہ سے ان کی رائے منفرد ہے اور ان کے یہ تفردات اجماع امت کے برخلاف ہیں۔ ‘‘(سہ ماہی ’’فکر ونظر ‘‘ اسلام آباد، ص105-شمارہ جنوری-مارچ، 2001ء) اور ہم بار بار وضاحت کرآئے ہیں بلکہ خود مولانا اصلاحی نے بھی باربار یہ اعتراف دہرایا ہے کہ میں نے جوکچھ لکھا ہے، وہ فکر فراہی ہی کی روشنی میں لکھا ہے، اور تمام حاملینِ فکر فراہی بھی اعتراف کرتے ہیں کہ مولانا کی تفسیر’’ تدبر قرآن ‘‘ فکر فراہی کی مکمل آئینہ دار ہے۔ 4۔ مولانا اصلاحی کی فکر پر ایک تنقید ڈاکٹر طاہر منصوری صاحب، ایسوسی ایٹ پروفیسر ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد نے کی ہے جو ان کی ’’شرح صحیح بخاری، جلد اول ‘‘ کے حوالے سےہےجو حسن وقبح کے ملے جلے ردّ عمل پر مبنی ہے۔ تاہم صحیح بخاری کی جن روایات کومولانا اصلاحی نے ردّ کیا ہے اور امام زہری پر جو ناروا تنقید کی ہے، اور بعض اجماعی مسائل کا جو انکار کیا ہے، اس کا ذکر کیا ہے۔ (تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو، سہ ماہی فکر ونظر، اسلام آباد، جلد4۔ شمارہ2، صفحات:145-157) ہمارے نزدیک یہ وہی زیغ وضلال ہےجو فکرفراہی نے مولانا اصلاحی کے اندر پیدا کیا۔ 5۔ مولانا ظفر احمد صدیقی(علی گڑھ یونیورسٹی، بھارت) کا ایک مقالہ سہ ماہی رسالہ ترجمان اسلام (بنارس) میں ’’سرسیدکےاثرات ‘‘کےعنوان سےشائع ہواہے۔ اس میں موصوف نے دلائل سے ثابت کیا ہےکہ مولانا حمید الدین فراہی کی فکر میں جوزیغ وضلال آیا، وہ سر سید کی صحبت اور ان کی فکر سے تأثر پذیری کا نتیجہ ہے، اس کی انہوں نےمتعدد مثالیں پیش کی ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ’’ترجمان اسلام ‘‘ شمارہ45، جنوری- مارچ 2001، صفحات 79-95، بنارس، بھارت) 6۔ ڈاکٹرعبیدالرحمٰن محسن بن مولانامحمدیوسف راجو وال نے ’’برصغیر میں اصول تفسیر کے مناہج واثرات، تجزیاتی وتنقیدی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کے لیے ایک نہایت مفصل مقالہ تحریرکیا ہےجو مذکورہ عنوان سے شائع ہوگیا ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس موضوع کی مناسبت سےبرصغیرکی تفسیری کاوشوں، بالخصوص اس کے اصولوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس کا باب پنجم ’’فراہی مکتب فکر کے اصول تفسیر ‘‘ کے لیے مخصوص ہے۔ اس عنوان کو موصوف نے چار فصلوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور یوں اس موضوع کا حق ادا کرنے کی کافی حد تک