کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 33
دوسرے اہل علم کی کاوشیں اور علمی تنقیدات بھارت میں بعض حضرات نے مولانا فراہی اور ان کے افکار پر پی ایچ ڈی(ڈاکٹریٹ)کےمقالے تحریر کیے ہیں لیکن ان تک ہماری رسائی نہیں ہوئی۔ اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نےفراہی صاحب کی فکراوران کے ’’نظم ِ قرآن ‘‘کے عنوان سےان کی ’’خدمت قرآنی ‘‘ کے بارے میں کیا موقف اختیار کیا ہے۔ تاہم پاکستان میں حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ کے صاحبزادۂ گرامی قدرحافظ انس نضرمدنی(فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ)نے بھی اس موضوع پرپنجاب یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے فاضلانہ مقالےکا عنوان ہے: ’’حمید الدین فراہی اور جمہور کے اصولِ تفسیر۔ تحقیقی وتقابلی مطالعہ ‘‘ یہ چھ سو صفحات پرمحیط نہایت علمی اور وقیع مقالہ ہے۔ اس میں جمہور کے مسلّمہ اصول تفسیر سےفراہی اصولوں کا تقابل کرکےفراہی اصولوں کی بے وقعتی بلکہ ان کی خطرناکی کو مدلل انداز سےآشکار کیا گیا ہےجس پر وہ بلاشبہ سزاوارِ تحسین اور قابلِ صدمبارک باد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس علمی کاوش کو قبول فرمائے اور اسے ’’فراہی نظم قرآن ‘‘ کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنائے۔ اسی طرح حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب کے دوسرے صاحبزادےڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی نے اگرچہ کسی اور موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ہے لیکن ایک نہایت علمی مقالہ مولانا فراہی کے اصول تفسیر پر لکھا ہے اور مدلل انداز سے ان کی تغلیط وتردید کی ہے۔ ان کایہ مقالہ شش ماہی ’’رشد ‘‘لاہور(جنوری2016ء)میں شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اس رسالےکے مدیر اعلیٰ ہیں۔ تیسرامقالہ ڈاکٹر سہیل حسن صاحب(ایسوسی ایٹ پروفیسر، صدرشعبۂ علوم القرآن والسنۃ، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) کا تحریر کردہ ہے جو مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’شرح مؤطا امام مالک، منتخب ابواب‘‘پر نقدوتبصرہ ہے۔ یہ مقالہ مفصل(13 صفحات پرمشتمل)ہے۔ اس میں ڈاکٹرسہیل حسن صاحب فرماتے ہیں: ’’مولانا اصلاحی نے تدبرحدیث کے کچھ نئے اصول وضع کیے ہیں جن میں وہ اسناد کی اہمیت کوکم کرتے ہوئے صرف قرآن کریم کو کسوٹی قرار دیتے ہیں جس پر پرکھ کر کسی حدیث کو ردّ یا قبول کیا جاسکتا ہے۔ اس