کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 327
واقعات کا انداز بتلا رہا ہے کہ کسی شخص نے گھر میں بیٹھ کر یہ واقعات تصنیف کیے ہیں، جس سے مولف کا مقصد صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو نمایاں اور ممتاز کرنا ہے، بلکہ اُن کے اندر خدائی صفات کا اثبات ہے، جس طرح کہ ’’محراب میں لاش ‘‘ والے واقعے سے واضح ہے۔ تاہم اس کے باوجود راقم نے ان واقعات کو غور سے پڑھا ہے، لیکن سوائے ایک واقعے کے کسی کا بھی تعلق مسئلہ زیرِ بحث سے نہیں ہے۔ یہ واقعہ صفحہ (250) پر بعنوان ’’ایک یتیمہ پر انوکھا ظلم ‘‘ ہے۔ صرف یہ واقعہ ایسا ہے کہ جس میں زنا کی گواہ صرف عورتیں تھیں (اور یہ سب جھوٹی تھیں) لیکن اس کے باوجود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے گواہی کے لیے ان کو طلب کیا۔ اس سے بظاہر یہ استدلال ممکن ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے باوجود اس بات کے کہ گواہ صرف عورتیں تھیں، آپ نے ان کو گواہی کے لیے طلب فرمایا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ زنا کے کیس میں عورت کی گواہی قابلِ قبول ہے، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ یہ فرما دیتے کہ مرد گواہ پیش کرو، عورتوں کو بطورِ گواہ پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن اول تو یہ واقعہ بالکل بے حوالہ ہے۔ اس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔ اگر اس قسم کے واقعات کو اہمیت دی جائے گی تو عورت کی گواہی کے ردّ کیے جانے کے واقعات بھی تصنیف کر کے کتابی شکل میں چھاپے جا سکتے ہیں اور پھر بطورِ ماخذ ان کو پیش کیا جا سکتا ہے، اس لیے دلائل کی دنیا میں ایسے مَن گھڑت واقعات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر بالفرض اس کی صحت تسلیم بھی کر لی جائے تو اس سے صرف یہی ثابت ہوگا کہ جہاں وقوعہ کے وقت گواہ صرف عورتیں ہی ہوں گی، تو وہاں ان کی گواہی یقیناً سنی جائے گی اور ایسے واقعات میں عورتوں کی گواہی سننے سے کسی بھی عالم و فقیہ کو انکار ہی نہیں ہے۔ سب اس بات کو مانتے ہیں۔ اختلاف صرف اس اَمر میں ہے کہ صرف عورتوں کی گواہی پر حد بھی نافذ کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ جمہور علما اس صورت میں صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، جب کہ امام ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ حد کے نفاذ کے بھی قائل ہیں، جیسا کہ راقم کے اصل مقالے میں اس کی ضروری تفصیل موجود ہے۔ بنا بریں راقم پوری ذمے داری سے یہ عرض کرتا ہے کہ اس کتاب میں پیش کردہ واقعات میں سے کوئی بھی واقعہ (اگرچہ ان کی استنادی حیثیت محلِّ نظر ہی ہے) علمائے کرام کے اس متفقہ موقف کے خلاف نہیں ہے، جس پر فقہائے اُمت کا اجماع ہے۔ والحمدللّٰہ علی ذلک!