کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 326
ابو داود، ترمذی اور مسند احمد؛ سنن بیہقی سے فائق تر ہیں اور اس لحاظ سے بیہقی کا متن مرجوح اور دوسری کتابوں کا متن راجح اور قابلِ قبول قرار پائے گا۔ علاوہ ازیں خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی روایت کردہ روایت کے متن کے مقابلے میں دوسرے متن ہی کو ترجیح دے کر دو احتمالات بیان کیے ہیں: پہلا یہ کہ ’’ اَمَرَ بِہٖ ‘‘ کا مطلب ہے کہ تعزیر کا حکم دیا، (رجم کا نہیں) دوسرا احتمال یہ کہ عورت کے ساتھ آنے والے لوگوں نے اُس شخص کے خلاف گواہی دی ہو۔ (اگرچہ یہ گواہیاں غلط تھیں)۔ تاہم ان گواہیوں کی بنا پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمِ رجم صادر فرمایا۔ (ملاحظہ ہو: سنن بیہقی: 8/ 284۔ 285) ان دو احتمالات کی موجودگی میں روایت سے وہ استدلال ممکن نہیں رہتا، جو بعض حضرات کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب الحدود کے بجائے اسے دوسرے باب میں ذکر کر کے مذکورہ استدلال کو کمزور کر دیا ہے، گویا اس کا تعلق ان کے نزدیک حدود سے ہے ہی نہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حسبِ ذیل باب میں یہ روایت ذکر کی ہے: (بَابُ مَنْ قَالَ یَسْقُطُ کُلُّ حَقٍّ لِلّٰہِ تَعَالیٰ بِالتَّوْبَۃِ قِیَاسًا عَلٰی آیَۃِ الْمُحَارَبَۃِ ) ’’اس بات کے بیان میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا ہر حق توبہ کے ساتھ ساقط ہو جاتا ہے، آیتِ محاربہ پر قیاس کرتے ہوئے۔ ‘‘ مثال پیش کرنے کا مطالبہ، کسی اصول پر مبنی نہیں ہے: ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایک مثال اس امر کی پیش کی جائے کہ جس میں عورت کی گواہی حدود میں ردّ کر دی گئی ہو، لیکن یہ مطالبہ کسی اصول پر مبنی نہیں ہے۔ جب مثبت طور پر اس کے واضح دلائل موجود ہوں (جیسا کہ مسئلہ زیرِ بحث پر موجود ہیں، جس کی تفصیل راقم نے بھی اپنے اصل مقالے (ص: 47۔ 52) میں ذکر کی ہے) تو اس کے بعد مذکورہ مطالبہ کوئی اہمیت اور وزن نہیں رکھتا، کیوں کہ اس کے برعکس بھی کوئی مثال پیش کرنی مشکل ہے۔ اس سلسلے میں ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے ‘‘ نامی ایک اُردو کتاب سے بعض واقعات پیش کر کے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ عورتوں کی شہادت پر حدود نافذ کی گئی ہیں۔ حالاں کہ اول تو یہ اُردو کی کتاب ہے، جو بے سند ہے۔ ثانیاً