کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 325
مزید تفسیری حوالوں کے لیے دیکھیے، ضمیمہ نمبر 5۔ علاوہ ازیں لِعان کی یہ شہادت (یا قَسم) جو عورت ادا کرتی ہے، اس کا تعلق اثباتِ حد سے نہیں ہے، درءِحد (حد کے ٹالنے) کے لیے ہے، جبکہ زیرِ بحث عورت کی وہ شہادت ہے، جس سے اثباتِ حد ممکن ہو سکے، اس میں چوں کہ عورت کی شہادت سے شبہہ پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ نیز اسلام عورت کو اس عدالتی شہادت کی کھکھیڑ میں ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا، اس لیے ان کو اس فرض کے ادا کرنے سے ہی سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ الا یہ کہ کوئی واقعہ ایسی جگہ ہوجائے، جہاں عورتوں کے سوا کوئی موجود ہی نہ ہو تو وہاں ان کی شہادتوں کی بنیاد پر حد یا تعزیر کی سزا دی جا سکتی ہے۔ عہدِ نبوی کے واقعے سے استدلال: عہدِ نبوی کے جس واقعے سے استدلال کیا جا رہا ہے کہ ایک عورت کے ساتھ ایک مرد نے بالجبر زنا کا ارتکاب کیا اور اُس عورت کی گواہی پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملزم کو رجم کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس حدیث کی بابت راقم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ سند اور متن کے لحاظ سے مخدوش اور مضطرب ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسے غیر صحیح قرار دیا ہے۔ بعد میں ایک اور فاضل دوست نے بھی اس کے بعض راویوں پر جرح کر کے اس روایت کو ساقط الاعتبار ثابت کیا ہے۔ استنادی حیثیت سے اگر ہم صَرفِ نظر بھی کر لیں، تب بھی اس سے وہ کچھ ثابت نہیں ہوتا، جس کے لیے اُسے پیش کیا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ روایت ’’مسندِ احمد ‘‘ (6/ 399) ’’ابو داود ‘‘ (4/ 542، طبع مصر) ’’جامع ترمذی ‘‘ (4/ 56، طبع مصر) میں آئی ہے۔ تینوں مقامات میں متن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مستغیثہ عورت کی نشاندہی پر کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ فعل کیا ہے، مدعا علیہ خاموش رہا، گویا اس کی خاموشی کو اقرار کے مترادف سمجھ کر اُس کی بابت رجم کا حکم دیا گیا۔ محض ایک عورت کے استغاثے، دعوے یا شہادت پر ایسا حکم نہیں دیا گیا، جبکہ بنائے استدلال یہ ہے کہ مدعا علیہ کے انکار کے باوجود محض عورت کے بیان پر حکمِ رجم دیا گیا۔ دراں حالیکہ مذکورہ کتابوں کے متن میں انکار کی صراحت نہیں ہے۔ البتہ سنن بیہقی میں وارد الفاظ سے انکار کا پہلو نکلتا ہے، لیکن اہلِ علم جانتے ہیں کہ صحت و استناد کے لحاظ سے