کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 324
سے واضح ہے۔ اس میں مزید کسی اور کو داخل کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر آیت کو اس کے ظاہری مفہوم سے نکال کر اس میں عموم پیدا کرنا صحیح نہیں ہے۔
آیاتِ لعان میں شہادت باﷲ کا مطلب حلف باﷲ (قسم) ہے:
اسی طرح آیاتِ لعان میں﴿أَرْبَعَ شَھَادَاتٍ باللّٰہ﴾ میں اصطلاحی شہادت مراد لے کر مرد و عورت کی گواہی کو برابر قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں﴿شھادات باللّٰہ﴾ کے معنی قسموں کے ہیں، کیوں کہ شہادت تو ایک انسان دوسرے انسان کے بارے میں دیتا ہے، جب کہ یہاں میاں بیوی جو ’’شہادت ‘‘ دیتے ہیں، وہ اپنے اپنے بارے میں ہے۔ خاوند خود اپنے بارے میں چار مرتبہ حلف اُٹھا کر یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر جو الزام عائد کر رہا ہے، اُس میں وہ سچا ہے اور بیوی حد سے بچنے کے لیے چار مرتبہ حلف اُٹھا کر یہ کہتی ہے کہ خاوند جھوٹا ہے۔
علاوہ ازیں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اسے قَسمیں ہی قرار دیا گیا ہے۔ عہدِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لعان کا جو واقعہ ہوا، اس میں عورت جھوٹی تھی، کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ خاوند کے بجائے زانی مرد کے مشابہ تھا، اُس موقعے پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
(لَوْلَا الْأَیْمَانُ لَکَانَ لِيْ وَلَھَا شَأْنٌ )
’’اگر یہ عورتیں قسمیں نہ کھا چکی ہوتی تو سزا سے نہ بچ سکتی۔ ‘‘
یہ حدیث اس بات پر نصِّ صریح ہے کہ﴿أَرْبَعَ شَھَادَاتٍ باللّٰہ﴾ میں قسمیں مراد ہیں، اصطلاحی شہادت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مفسرینِ اُمت اور فقہائے کرام بھی اس آیت سے وہ استدلال ضرور کرتے، جو اب بعض لوگ اس سے کر رہے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر مرد و عورت کی گواہی کو برابر باور کرا رہے ہیں، دراں حالیکہ دونوں کی گواہی کو برابر قرار دینا قرآن و حدیث کی دوسری نصوصِ صریحہ سے بھی متصادم ہے اور یوں وہ ’ اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا ‘(قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے) کے بجائے ’ اَلْقُرْآنُ یُخَالِفُ بَعْضُہٗ بَعْضاً‘(قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی مخالفت کرتا ہے) کا اثبات کر رہے ہیں۔
اس آیت کے استدلال کے ضمن میں، راقم اپنے مفصل مقالے میں بھی بحث کر چکا ہے، (ملاحظہ ہو: ص: 70۔ 76)