کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 323
اجازت ہے۔ صرف چار آدمیوں کی موجودگی میں احتیاط ضروری ہے۔ کیا اسلام کے اس کڑے معیار کو زنا کی اجازت سے تعبیر کرنا صحیح ہوگا؟ اگر یہ تعبیر صحیح نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو پھر گواہوں کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کو زنا کی اجازت سے تعبیر کرنا بھی کسی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔ اگر چار گواہوں کا نصاب صحیح ہے اور یقیناً صحیح ہے تو مسلمان ہونے کی شرط بھی صحیح ہے۔ اس سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوگا۔ بنا بریں فقہائے امت نے متفقہ طور پر مسلمان ہونے کی جو شرط عائد کی ہے، اسے محض مفروضوں کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ (فقہائے امت کا اس پر اتفاق ہے یا نہیں؟ اس کے لیے ضمیمہ نمبر 2 ملاحظہ فرما لیا جائے) مرد کی طرح عورت بھی الزامِ زنا عائد کر سکتی ہے: اسی طرح ﴿وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ﴾ میں ﴿مِنْ نِّسَآئِکُمْ﴾ سے یہ استدلال کرنا کہ جس طرح عورت کے ارتکابِ زنا پر مرد شکایت کر سکتا ہے، اسی طرح مرد کے ارتکابِ زنا پر عورت شکایت کر سکتی ہے یا ایک عورت دوسری عورت کی شکایت کر سکتی ہے، اس لیے ﴿مِنْ نِّسَآئِکُمْ﴾ کا ’ کُمْ ‘ صرف مردوں کے لیے خاص نہیں رہتا، اسی طرح ﴿اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ﴾ کا ’ کُمْ ‘بھی مردوں کے لیے یا مسلمانوں کے لیے ہی خاص نہیں رہنا چاہیے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورت نساء کی اس آیت سے مذکورہ اصول کے کشید کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیوں کہ فقہا نے یہ بات: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ﴾ (النور: 4) کے تحت تسلیم کی ہے اور اس کا وہاں ذکر کیا ہے۔ (دیکھیے: ضمیمہ نمبر4) اگرچہ اس آیت میں عورت کا مرد کے ساتھ الحاق کرنے کی وجہ میں اختلاف ہے۔ کسی نے اشتراکِ علت کی بنا پر قیاس کے ذریعے سے الحاق کیا ہے اور کسی کے نزدیک قیاس کے بغیر ہی یہ چیز چوں کہ اس کے معنی و مفہوم میں داخل ہے، اس لیے یہ بات ’ من باب کون الشییٔ في معنی الشییٔ ‘کے تحت اس میں داخل ہے۔ تاہم اس بات سے انکار کسی کو نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بات بھی اجماعِ امت سے طَے پا گئی ہے کہ جس طرح ایک مرد عورت پر الزامِ زنا (قذف) عائد کر سکتا ہے، اُسی طرح ایک عورت بھی یہ الزام عائد کر سکتی ہے۔ اس لیے سورت نساء کا صرف وہی مفہوم مراد لینا صحیح ہے، جو اُس کے ظاہری الفاظ