کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 322
سے انحراف ہے۔ تاہم موصوف یہ دعویٰ کر کے آگے گزر گئے اور اس سلسلے میں کوئی دلائل پیش نہیں کیے۔ اس لیے فی الحال اس پر بحث ممکن نہیں۔ یہاں اس وقت اس کا ذکر اس لیے کر دیا گیا ہے، تاکہ موصوف کی تنہا روی کی رَوش مزید نمایاں ہو کر سامنے آجائے۔ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں؟ 5۔ موصوف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، جو احکام مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی اسلامی مملکت میں رہنے والے غیر مسلموں کے لیے بھی ہیں۔ اس لیے اسلام کے تعزیری نظام کے دائرے سے وہ باہر نہیں ہوں گے۔ یہ موقف بھی فقہائے اُمت کے متفقہ اور اجماعی مسلک سے مختلف ہے۔ غیر مسلم جس طرح عبادات میں اسلامی احکام کے پابند نہیں ہیں، اسی طرح وہ اور بہت سے احکام میں اسلامی شریعت کے پابند نہیں ہیں اور انہی احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زنا کے گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ غیر مسلموں کی گواہی پر زنا کی حد عائد نہیں ہوگی، البتہ تعزیری سزا دی جا سکتی ہے اور تعزیری سزا قتل تک بھی ہوسکتی ہے۔ اس پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ جہاں مسلمان گواہ میسر آنے کا امکان نہ ہو، وہاں پھر گویا ایک اسلامی مملکت میں زنا کی اجازت ہوگی، کیوں کہ غیر مسلموں کی گواہی پر تو حدِ زنا عائد ہی نہیں ہوسکے گی۔ لیکن راقم کے خیال میں غیر مسلموں کی شہادت پر حدِ زنا کے عدمِ نفاذ کا مطلب زنا کی اجازت لینا صریحاً زیادتی ہے۔ اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ ایسے علاقوں میں، جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہو، وہاں زنا کی عام اجازت ہوگی۔ اس کے وجوہ بھی حسبِ ذیل ہیں: اولاً: ایک اسلامی مملکت میں، جہاں صحیح معنوں میں اسلام کا نظامِ حدود و تعزیرات نافذ ہو، جرائم کا ایسا سدِ باب ہوجاتا ہے کہ وہاں زنا کاری کی کسی کو جراَت ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے وہاں مذکورہ اعتراض کی حیثیت ایک مفروضے سے زیادہ نہیں ہے۔ ثانیاً: یہی اعتراض اسلام کے مقررہ نصابِ شہادت پر بھی عائد ہو سکتا ہے۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اسلام نے ثبوتِ زنا کے لیے چار عینی گواہوں کو جو ضروری قرار دیا ہے، وہ اتنا کڑا معیار ہے کہ عملاً چار عینی گواہوں کا مہیا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں جہاں دو یا تین گواہ ہوں، وہاں زنا کی عام