کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 321
الزام ہے یا یوں ہی محض بیٹھے بٹھائے لگا دیا گیا ہے؟ آخر الزام لگانے کے بعد ہی عدالت ثبوت طلب کرے گی۔ اگر یہ دو الگ الگ جرم ہیں تو عدالت کس جرم کے تحت ثبوت مانگے گی؟ محض تہمت کے اثبات کے لیے یا الزامِ زنا کے ثبوت کے لیے؟ پہلی صورت کے لیے چار گواہوں کا پیش کرنا ضروری ہوگا، جب کہ دوسری صورت کے لیے سرے سے متعین نصابِ شہادت ہی ضروری نہیں ہے۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ محض تہمت زیادہ بڑا جرم ہے کہ اس کے ثبوت کے لیے تو چار گواہ ضروری ہیں۔ اگر یہ مہیا نہیں کیے جائیں گے تو تہمت لگانے والوں کو اَسّی اَسّی کوڑے لگائے جائیں گے اور الزامِ زنا (جو صدورِ زنا کے بعد عائد کیا گیا ہو) وہ ہلکا جرم ہے، جس کے لیے شہادت کا کوئی نصاب ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس موقف کی کمزوری اس سے بھی واضح ہے کہ اگر فی الواقع مسئلے کی نوعیت ایسی ہی ہوتی، جیسی کہ غامدی صاحب نے بیان کی ہے تو پھر لعان کی مشروعیت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ہے، کیوں کہ لعان کی ضرورت اسی وقت پیش آتی ہے کہ جب خاوند اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو کسی اور مرد کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے، لیکن اس کی مشکل یہ ہے کہ وہ چار عینی گواہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ نیز بیوی کی بدکاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اس کی غیرت بھی اس کو اپنے پاس رکھنا گوارا نہیں کرتی۔ شریعت نے اس کی مشکل کا یہ حل پیش کیا کہ وہ اس صورت میں لِعَان کر کے بیوی سے علیحدہ ہوجائے۔ اب اگر زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہ ضروری نہیں ہیں، بلکہ ایک گواہی بھی کافی ہے تو بیوی کی بدکاری پر خاوند سے بڑھ کر اور کون گواہ ہو سکتا ہے؟ اگر ثبوتِ زنا کے لیے ایک گواہی بھی کافی ہوتی تو خاوند کی گواہی پر بیوی پر زنا کی حد عائد ہونی چاہیے تھی، لیکن شریعت نے ایسا نہیں کیا، بلکہ خاوند کو بھی یہی حکم دیا کہ وہ چار گواہ پیش کرے، بصورتِ دیگر لعان کرے۔ لِعان کی مشروعیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ثبوتِ زنا کے لیے چار گواہ ضروری ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اﷲ تبارک وتعالیٰ لِعان کا حکم ہی نازل نہ فرماتا، کیوں کہ لعان کا تو حکم ہی ایک گواہ کی موجودگی کے باوجود مشروع کیا گیا ہے اور اس ایک گواہی کو ثبوتِ زنا کے لیے کافی نہیں سمجھا گیا۔ موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حد اور تعزیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دعویٰ بھی امت کے اجماعی موقف