کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 320
غلط ہے۔ الزامِ زنا کے ثبوت کے لیے ایک گواہ بھی کافی ہے، بلکہ قرائن کی بنیاد پر بھی زنا کی سزا دی جا سکتی ہے۔
یہ دعویٰ بھی، جو اگرچہ بڑے تحدّی کے انداز میں کیا گیا ہے، قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہے، جیسا کہ آیت: ﴿وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ﴾ (النساء: 15) میں چار گواہوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور پھر اس کی تاکید سورت نور کی آیت: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ﴾ (النور: 4) میں کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں آیتِ نور: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ﴾ کی شانِ نزول سے متعلقہ صحیح روایات میں بھی چار گواہوں کی تعیین کی گئی ہے۔
قرآن و حدیث کی ان واضح نصوص سے امت کے تمام مفسرین، علما اور فقہا و محدثین نے یہی سمجھا ہے کہ ثبوتِ حدِ زنا کے لیے (اگر مجرم کا اپنا اقرار و اعتراف نہ ہو) تو چار گواہ ضروری ہیں۔ اس نصابِ شہادت کے انکار کا صاف مطلب یہ ہے کہ امت کے تمام فقہا و محدثین (نعوذ باﷲ ثم نعوذ باﷲ) قرآن و حدیث کے فہم سے یکسر عاری تھے کہ ایک ایسی چیز کو انھوں نے لازمی اور ضروری سمجھا، جس کا قرآن و حدیث میں سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔
﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ﴾کی دور از کار تاویل:
4۔ یہ موقف چوں کہ قرآنِ کریم کی نصِّ صریح: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ﴾سے ٹکراتا ہے، اس لیے اس آیت کی یہ دور از کار تاویل کی گئی کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جو بیٹھے بٹھائے یوں ہی (بغیر واقعے کے) کسی پاک دامن پر زنا کی تہمت لگا دیتے ہیں۔ یعنی صدورِ زنا کے بغیر جو لوگ کسی پر یوں ہی تہمت لگا دیتے ہیں، اس کے لیے چار گواہ ضروری ہیں، لیکن اگر فی الواقع زنا کا صدور ہو چکا ہو تو اس کے ثبوت کے لیے چار گواہ ضروری نہیں ہیں۔ بغیر گواہوں کے بھی اس کا اثبات کیا جا سکتا ہے، یا ایک گواہ کے بیان پر بھی حدِ زنا عائد کی جاسکتی ہے۔ صرف عدالت کا اطمینان کافی ہے۔ متعین نصابِ شہادت ضروری نہیں ہے۔
یہ تاویل اپنی رکاکت اور بودے پن میں بالکل واضح اَور ’’عیاں راچہ بیاں ‘‘ کی مصداق ہے۔ قرآنِ کریم کے الفاظ اس بودی تاویل کو کسی طرح قبول نہیں کرتے۔
الزام کی دو نوعتیں بنا دی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا کہ یہ الزام فی الواقع ایک صحیح