کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 32
مصداق ہے۔ ؎
من تُو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تُو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
تیسرے جاوید احمد غامدی ہیں، جو دعویدار تو اسی فکر فراہی ہی کے ہیں۔ لیکن ان کی فکری ترک تازیاں اپنے دونوں پیش رؤوں سے بڑھ کر الحاد وزندقہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اعاذنااللّٰہ منہ
چوتھے، مولانا زاہد الراشدی کے بیٹے، عمارخان ناصرہیں جو غامدی صاحب کے شاگردرشید اور ان کے وکیل صفائی ہیں۔ یہ صاحب بھی غامدی صاحب کی وکالتِ صفائی میں مذکورہ شعر ہی کے مصداق اور یک جان دوقالب کے آئینہ دار ہیں۔
ان دونوں حضرات کی بابت یہاں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں کا علمی پوسٹ مارٹم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس طرح کردیا گیا ہے کہ علمی دنیا میں یہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔ یہ تفصیل آپ اس کتاب کے دوسرےاور تیسرے حصے میں ملاحظہ فرمائیں گے۔
الحمدللہ، یہ بات نہایت مسرت افزا ہے کہ پہلے پہل بہت سےلوگ ’’نظم قرآن ‘‘کے خوش نما عنوان سے اس مغالطے کا شکار ہوگئے تھے کہ یہ فکرفراہی ’’قرآنی حقائق ‘‘ کے انکشاف کی عظیم اورنادر کاوش ہے، اور اسے ایسے ہی باور کرایا گیااور کرایا جارہاہے۔ لیکن اب اصل حقیقت واضح ہوتی جارہی ہے کہ یہ دراصل صاحبِ رسالت اور حاملِ قرآن پیغمبر مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ توڑ کر قرآن کے نام پر تمام مسلمات اسلامیہ کے انکار کی تحریک اور منصب رسالت پر ڈاکہ زنی ہے۔ اب اس انکشا ف حقیقت کےراہرو ہم اکیلےہی نہیں ہیں بلکہ اس کے راز دان اور بھی متعدداہل علم وتحقیق ہیں، اس کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔