کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 318
﴿وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ﴾(البقرۃ: 14) ’’جب منافقین اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم بھی ایمان دار ہیں اور جب اپنے سرداروں سے اُن کی ملاقات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ‘‘ حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہاں قرآن مجید میں لفظ ’’إِذَا ‘‘ جو ماضی کے صیغے پر داخل ہوا ہے، استمرار کے لیے ہے: ’ أيْ: إِنَّ ھٰذَا شَأْنُھُمْ أَبَدَاً ‘ (یعنی ہمیشہ وہ اسی کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں)۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿ وَإِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ ﴾’’منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست سست کھڑے ہوتے ہیں۔ ‘‘ اس آیت میں بھی ’’إِذَا ‘‘ استمرار کے لیے ہے۔ ‘‘[1] اس لیے جب تک ’ یَأْتِیْنَ ‘ میں استمرار کے لیے کوئی لفظ یا واضح قرینہ نہیں ہوگا، خالی لفظِ مضارع کو استمرار کے مفہوم میں نہیں لیا جا سکتا۔ اس لیے موصوف کا دعویٰ عربی زبان کے مسلّمہ اصول و قواعد کے بھی خلاف ہے۔ 2۔ موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’ شُھَدَآء ‘ کا لفظ ’ أَزْوَاج ‘کی طرح مشترکہ ہے، اس لیے ’أَرْبَعَۃ شُھَدَآء ‘سے صرف چار مردوں کی تخصیص صحیح نہیں، اس میں مرد اور عورت دونوں شامل سمجھے جائیں گے۔ لیکن موصوف نے یہ نہیں سوچا کہ علما و فقہائے اُمت کا اصل استدلال سورت نساء میں وارد لفظ ’ أَرْبَعَۃ شُھَدَآء ‘سے ہے، جس میں عدد معدود کے مسلّمہ اصول کے مطابق چار مرد گواہ ہی اس جرم کے اثبات کے لیے ضروری ہوں گے۔ اس لیے لفظ ’ شُھَدَآء ‘کو مشترکہ جان لینے کے باوجود سورت نساء میں وارد لفظ ’ أَرْبَعَۃ ‘میں عدد معدود کے اصول کے مطابق، جب تک کسی مضبوط دلیل سے ’ أَرْبَعَۃ ‘ کو بھی مشترک ثابت نہ کر دیا جائے، لفظ ’شُھَدَآء‘ کے مشترک ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ ’فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ أَرْبَعَۃً ‘ کا انداز بتلا رہا ہے کہ یہاں محذوف ’ رِجَال ‘ ہی ہے، ’ شُھَدَآء‘ َ نہیں ہے۔ اس لیے مفسرینِ اُمت نے بالاتفاق اس سے ’ اَرْبَعَۃَ رِجَالٍ ‘ ہی جو مراد لیا ہے، وہ یقیناً منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔ جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ تمام مفسرینِ اُمت نے یہاں رجال ہی کی تخصیص کی ہے، اس کے لیے ضمیمہ نمبر 2 ملاحظہ فرما لیا جائے۔
[1] ملاحظہ ہو: الإتقان (۱/ ۱۴۹) طبع ۱۹۳۵ء، مصر