کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 317
طرح تو بہت سے حقوق ضائع ہوں گے، سرے سے قرآن کے بیان کردہ اصول اور ضابطے کا انکار ہی کر دینا معقول طرزِ عمل نہیں ہے۔
ان دونوں موقفوں میں، جو اگرچہ ایک دوسرے سے یکسر متضاد ہیں، بنیادی طور پر ایک ہی مفروضہ کار فرما ہے کہ اگر معاہدہ تحریری نہ ہوا تو پھر جھگڑے کی صورت میں اس کے ثبوت کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ حالاں کہ اس قسم کی صورتوں کے لیے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک حل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مُدّعی کے پاس کوئی ثبوت اور گواہ نہیں ہے تو مُدعیٰ علیہ سے قسم طلب کی جائے گی اور قسم پر فیصلہ کیا جا سکے گا۔ نیز ایک گواہ کم ہونے کی صورت میں ایک قسم سے اُس کمی کو پورا کیا جا سکے گا۔
گویا یہاں بھی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے اعتنائی، بلکہ گریز و انحراف نے دونوں فریقوں کو عجیب مخمصے اور پیچیدگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہاں اس مثال کے پیش کرنے سے مقصود بھی اُن کے اسی نظریاتی انتشار کی وضاحت ہے، جو حجیتِ حدیث کے انکار کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔
غامدی صاحب کے دلائل کی حقیقت:
اب میں مختصراً غامدی صاحب کے دلائل کی وضاحت کر کے اُن کے استدلال کی کمزوری نمایاں کروں گا، کیوں کہ بعض حضرات ان کے ادّعائی رویوں کی وجہ سے موصوف کے دلائل اور دعاوی میں قوت محسوس کر رہے ہیں۔ اس لیے نہایت ضروری، بلکہ فرضِ منصبی ہے کہ میں اس پر بھی کچھ گزارشات پیش کروں:
1۔ موصوف نے ﴿یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ﴾(النساء: 15) میں استمرار کا مفہوم لیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد پیشہ ور طوائف ہیں، حالاں کہ یہ دعویٰ ایک طرف تمام مفسرینِ اُمت کی متفقہ رائے کے خلاف ہے (اس کی تفصیل ضمیمہ نمبر 1 میں ملاحظہ فرمائیں) دوسرے خود قواعدِ عربیت کی رُو سے بھی غلط ہے، کیوں کہ یہاں استمرار پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ جب ایسا ہے تو اس میں استمرار کا مفہوم کیوں کر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض دفعہ عام قاعدہ، یعنی فعل مضارع پر ’’ کَانَ ‘‘ کے بغیر بھی (جو استمرار کا عام قاعدہ ہے) استمرار ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے قوی قرینہ ضروری ہے، بغیر کسی قرینے کے استمرار کا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا۔
جیسے قرآن مجید میں ہے: