کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 316
ہے کہ ’’امت میں مَیں پہلا فرد ہوں، جس کی یہ رائے ہے، حتیٰ کہ اس رائے میں مَیں اپنے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے بھی مختلف ہوں۔ ‘‘[1]
موصوف نے جو موقف اختیار کیا ہے، اُس کے دلائل پر تو آگے بحث آئے گی، یہاں فی الحال اس پہلو کی وضاحت مقصود ہے کہ فقہائے امت کے متفقہ مسلک سے انحراف نے، جو دراصل حجیتِ حدیث کے انکار پر مبنی ہے، موصوف کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کتنے فخر اور تعلّی سے وہ پوری امت میں اپنے منفرد ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس زیغ و ضلال اور ’ مَنْ شَذَّ شُذَّ۔ ۔ ‘ کا مصداق بننے سے بچائے!
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور تضاد کی طرف توجہ مبذول کرا دی جائے، جو مذکورہ حضرات کے باہمی موقف میں پایا جاتا ہے اور وہ ہے آیتِ مُدَاینہ[2]کے مفہوم میں۔
ایک صاحب نے یہ کہا ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو باہمی قرض کا معاملہ کرتے ہوئے جو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اُسے ضبطِ تحریر میں ضرور لائیں۔ نیز اس پر دو مرد گواہ یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ یہ حکم ایسا ہے کہ جو لَین دین ضبطِ تحریر کے بغیر ہو گا، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی اور اس قسم کے معاملات کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکے گا۔
اس کے برعکس غامدی صاحب نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اموال و دیون میں پیش کردہ مذکورہ ہدایت محض ایک اَخلاقی تعلیم ہے، کوئی اصول، ضابطہ اور متعین نصابِ شہادت نہیں ہے، کیوں کہ بہت سے لوگ لکھنے اور گواہ بنانے کا اہتمام نہیں کرتے۔ اگر اسے اصول اور کلیہ مان لیا جائے گا تو ایسے بہت سے لوگوں کی داد رسی کا اہتمام ناممکن ہو گا۔
حالاں کہ یہ دونوں ہی موقف غلط ہیں۔ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر معاہدے کی تحریر نہیں ہوگی تو وہ معاہدہ ہی کالعدم سمجھا جائے گا، اس طرح تو بے شمار لوگوں کے حقوق ضائع ہوں گے۔ اسی طرح اس مفروضے پر کہ اس
[1] خیال رہے کہ غامدی صاحب کے یہ وہ الفاظ ہیں، جو انھوں نے فاضل عدالت کے رُبرو کہے تھے۔ تاہم اپنے تحریری بیان میں اس ’’ادعا‘‘ سے اجتناب برتا ہے۔ پتا نہیں کیوں؟
[2] دیکھیں: سورۃ البقرۃ، آیت: ۲۸۲۔ ۲۸۳