کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 315
کی اس میں سزا بیان کی گئی ہے۔ عام بدکار عورتوں کی یہ سزا نہیں ہے۔ گویا پہلے صاحب نے اُسے بالکل عام کر دیا اور دوسرے صاحب نے اسے بالکل خاص کر دیا۔ [1] علاوہ ازیں پہلے صاحب نے اس آیت کو محکم (غیر منسوخ) قرار دیا اور دوسرے صاحب نے اسے ایک عبوری حکم باور کرایا، جو بعد میں آیت: ﴿اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا﴾ سے منسوخ ہوگیا۔ پھر ان صاحب نے مزید ظلم یہ ڈھایا کہ محض اپنے نقطۂ نظر کے اثبات کے لیے سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ اور سیدہ غامدیہ رضی اللہ عنہا جیسے پاک باز صحابی و صحابیہ کو غنڈہ، پیشہ ور بدمعاش اور طوائف باور کرایا۔ (نعوذ باللّٰہ من ھذہ الھذیانات والخرافات) دراں حالیکہ وہ دونوں نہایت نیک اور مخلص مسلمان تھے، جن سے بہ تقاضائے بشریت غلطی کا صدور ہوگیا تھا اور جس نے انھیں بے قرار اور مضطرب کر دیا تھا۔ [2] ٭ پھر اسی پر ہی بس نہیں کی گئی، یہ دعویٰ بھی ان صاحب نے کیا کہ قرآن و حدیث میں کہیں سرے سے ثبوتِ زنا کے لیے چار گواہوں کا ہی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے اثباتِ زنا کے لیے چار گواہوں کا نصاب ہی غیر ضروری ہے۔ زنا تو ایک گواہ، بلکہ ایک بچے کی شہادت، بلکہ بغیر کسی شہادت کے قرائن کی بنیاد پر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ٭ اسی طرح موصوف نے حد اور تعزیر کے مابین فرق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ [3] ٭ اور آیت﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ﴾ (النور: 4)کی بابت ارشاد فرمایا گیا کہ اس میں ان لوگوں کی بابت سزا بیان کی گئی ہے، جو بیٹھے بٹھائے یونہی بغیر کسی واقعے کے صدور کے کسی پر بدکاری کی تہمت لگا دیں، اس کا تعلق زنا کے اس الزام سے نہیں ہے، جس کا فی الواقع ارتکاب کیا جا چکا ہو، کیوں کہ اس کے ثبوت کے لیے تو کسی متعین نصابِ شہادت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ موصوف کی یہ تمام باتیں قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہیں اور جیسا کہ خود موصوف نے تسلیم کیا
[1] اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم کی کتاب ’’حدِ رجم کی شرعی حیثیت‘‘، ص: ۵۶۔ ۶۶ [2] اپنے تحریری بیان میں اس نکتے کو انھوں نے سِرے سے حذف ہی کر دیا ہے، جبکہ عدالتی بیان میں انھوں نے حد اور تعزیر کے درمیان فرق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (ص۔ ی) [3]