کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 314
جسے زنا کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس کی وضاحت سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اُس صحیح حدیث میں آگئی ہے، جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آیتِ مذکورہ میں جس ’’سبیل ‘‘ کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا، وہ سبیل واضح کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کو رجم اور غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں۔ (فاحشہ کی تعیین میں مفسرینِ امت کے اتفاق کے لیے ملاحظہ ہو: ضمیمہ نمبر 1) اس حدیث نے یہاں ’فاحشۃ ‘ کے مفہوم کو متعین کر دیا اور اس جرم کے اثبات کے لیے چار مسلمان مرد گواہوں کو ضروری قرار دے دیا ہے، کیوں کہ نصابِ شہادت تو یہاں قرآن نے ہی بیان کر دیا ہے، جس کا اعادہ سورت نور کی آیت: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ﴾(النور: 4) میں بھی کیا گیا ہے اور زنا کی حد بالخصوص شادی شدہ زانی مرد و عورت کی حد حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ’’سبیل ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرما دی گئی ہے۔ چناں چہ مذکورہ حدیث کی وجہ سے تمام مفسرینِ امت اور تمام علما و فقہا مذکورہ حدِ زنا اور نصابِ شہادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب، جنھوں نے اپنے استاذ حمید الدین فراہی کی اندھی تقلید میں اُمت میں سب سے پہلے ببانگِ دہل حدِّ رجم کا بطورِ حد انکار کیا، وہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آیاتِ مذکورہ میں بیان کردہ تعزیرات اگرچہ سورت نور میں نازل شدہ حدود کے بعد منسوخ ہوگئیں، لیکن بدکاری کے معاملے میں شہادت کا یہی ضابطہ بعد میں بھی باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر تدبر قرآن: 2/ 37) اس کے برعکس جن لوگوں نے حدیثِ مذکور (حدیثِ عبادہ رضی اللہ عنہ ) کو نظر انداز کر دیا ہے، ان کا باہمی اختلاف و تضاد ملاحظہ ہو۔ ایک صاحب نے کہا ہے کہ ’فاحشۃ ‘سے مراد صرف زنا نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کی بے حیائی مراد ہے اور ہر قسم کی بے حیائی کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔ دوسرے (غامدی) صاحب نے کہا کہ اس سے مراد زنا نہیں ہے، نہ اس میں زنا کی سزا ہی بیان کی گئی ہے، بلکہ اس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ [1]جس کی وجہ سے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو پیشہ ور طوائفیں ہیں، ان
[1] اپنے تحریری بیان میں استمرار والی بات غامدی صاحب نے نہیں دُہرائی، جب کہ عدالت کے رُوبُرو بیان دیتے ہوئے اسے انھوں نے بڑے اعتماد، بلکہ اِدّعا کے ساتھ پیش کیا تھا۔ (ص۔ ی)