کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 313
مماثلت و موافقت پائی جاتی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے پانچ ضمیمے آخر میں شامل ہیں۔ اس کے برعکس جو دوسرا موقف پیش کیا گیا ہے، اس کے پیش کرنے والوں نے بھی زبان کی حد تک اگرچہ اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ حدیث کی حجیت کے وہ بھی قائل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زبانی دعوے کے بعد اُنھوں نے جو موقف پیش کیا ہے وہ سراسر حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف پر مبنی ہے۔ اس لیے اُن کا یہ دعویٰ کہ حجیتِ حدیث کے وہ قائل ہیں، مرزائیوں کے اس دعوے سے مختلف نہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے قائل ہیں۔ دراں حالیکہ ختمِ نبوت کا وہ ایک ایسا مفہوم مراد لیتے ہیں جس سے متنبیِ قادیاں کی نبوت کا اِثبات بھی ہوسکے۔ اگر مرزائیوں کا دعوائے ختمِ نبوت اس لیے تسلیم نہیں کہ وہ اس کا ایک من مانا مفہوم مراد لیتے ہیں اور اس مفہوم کو تسلیم نہیں کرتے، جو اُمت کا متفقہ مسلک ہے تو پھر ان حضرات کا حجیتِ حدیث کے تسلیم کرنے کا دعویٰ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے، جو حجیتِ حدیث کا ایک خود ساختہ مفہوم مراد لیتے ہیں اور وہ مفہوم مراد نہیں لیتے جو اس کا حقیقی مفہوم ہے اور جسے پوری اُمت کے علما و فقہا تسلیم کرتے آئے ہیں۔ قرآن فہمی کے اصول میں اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے ان حضرات نے آیاتِ زیر بحث کا مفہوم حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً بے نیاز ہو کر محض اپنے زورِ فہم سے متعین کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انھوں نے تمام مسلّمات ہی کا انکار کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں ان حضرات کا موقف بھی ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں، ایک دوسرے کے متضاد ہے۔ گویا ایک متفقہ موقف سے انحراف کر کے انھوں نے کوئی ایک واضح موقف پیش کرنے کے بجائے اختلاف و انتشار کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے اور یہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف کا وہ لازمی و منطقی نتیجہ ہے، جو بہر صورت نکلتا ہے اور ہمیشہ نکلے گا۔ اپنی اس بات کو اب میں چند مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا، تاکہ میرا نقطۂ نظر نمایاں ہوسکے۔ آیت ﴿وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ﴾ (النساء: 15) میں فاحشہ سے کیا مراد ہے؟ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، علما و فقہا نے کہا ہے کہ یہاں اس سے مراد بے حیائی کی وہ قبیح ترین صورت ہے،