کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 312
اس میں غامدی صاحب اور ان جیسے بعض دوسرے منحرفین کے پیش کردہ دلائل کا مختصر جائزہ لیا اور ان کے موقف کی کمزوری اور ان کے استدلال کے پائے چوبیں کی بے تمکینی کو واضح کیا۔ (یہ تحریر بھی اس وقت فاضل عدالت میں پیش کر دی گئی تھی) نومبر 1990ء کے ’’اِشراق ‘‘ میں جناب غامدی صاحب نے اپنے اس بیان کا خلاصہ شائع کر دیا ہے، جو انھوں نے فاضل عدالت کے رُوبُرو پیش کیا تھا۔ چوں کہ انھوں نے اپنا یہ خلاصہ شائع کر دیا ہے، اس لیے اس کے جواب میں جو تحریر شرعی عدالت کو ارسال کی گئی تھی، راقم نے بھی افادۂ عام کی خاطر اسے ’’محدث ‘‘ (جنوری 1992ء) میں شائع کرا دیا تھا۔ اس تحریر میں قارئین شاید کچھ تشنگی اور ابہام محسوس کریں، کیوں کہ یہ تحریر خاص پسِ منظر میں لکھی گئی ہے جس میں اصل مسئلے کے بجائے مخصوص نکات ہی پیشِ نظر رہے ہیں۔ اصل مسئلے پر راقم کا مفصل مقالہ ماہنامہ ’’ تعلیم الاسلام ‘‘ ماموں کانجن میں بالاقساط شائع ہو چکا ہے۔ جس کی تلخیص راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل ‘‘ میں شامل ہے۔ عدالتی بیان: مسئلہ شہادتِ نسواں پر، جو فاضل عدالت میں زیرِ بحث ہے، دو موقف پیش کیے گئے ہیں۔ اتفاق سے اس دفعہ گذشتہ چند دنوں لاہور میں جو بحث ہوئی، اسے راقم کو سننے کا موقع ملا۔ اس سے الحمد ﷲ راقم کو اس موقف کی صداقت پر مزید یقین حاصل ہوا، جو چودہ سو سال سے علما و فقہائے امت کا رہا ہے اور اب تک ہے۔ علاوہ ازیں قرآن فہمی کے اس اصول کی صداقت بھی مزید نکھر کر سامنے آئی کہ قرآن کریم کو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ ایسی جو کوشش بھی ہوگی، وہ سراسر گمراہی ہے، کیوں کہ اس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک تیسری چیز یہ بھی واضح ہوئی کہ علما و فقہائے اُمت کا مسئلہ شہادتِ نسواں پر جو اتفاق ہے، اُس کی بھی واحد وجہ یہی ہے کہ ان حضرات نے آیاتِ متعلقہ کا مفہوم و مطلب حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعین کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ان آیات کی تشریح و توضیح میں کسی گنجلک کا شکار نہیں ہوئے، بلکہ حیرت انگیز حد تک ان کے درمیان