کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 311
شرعی عدالت میں غامدی صاحب کے انحرافات اور کہہ مکرنیاں
مسئلہ شہادتِ نسواں پر شرعی عدالت میں بیان
چند اہم نکات کی وضاحت
جون 1989ء میں وفاقی شرعی عدالت کے لاہور سیشن میں تقریباً دو ہفتے مسئلہ شہادتِ نسواں پر بحث جاری رہی۔ درخواست گزاروں کا موقف یہ تھا کہ حدود آرڈیننس میں حدود کے معاملات میں عورت کی گواہی کو جو ناقابلِ قبول قرار دیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اس معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔
تمام مکاتبِ فکر کے جید علما کے علاوہ تجدد پسندوں اور مغرب زدہ حضرات کو بھی دعوتِ خطاب دی گئی اور فاضل عدالت نے بڑے صبر و تحمل سے سب کی باتیں سنیں۔ متجددین و منحرفین میں ایک جاوید احمد غامدی صاحب بھی تھے۔ انھوں نے نہ صرف شہادتِ نسواں کے مسئلے میں مغرب زدگان کی ہم نوائی کی، بلکہ اپنے بیان اور خطاب میں اور بھی کئی اسلامی مسلّمات کا انکار اور قرآنِ کریم کی معنوی تحریف کا ارتکاب کیا۔
راقم بھی اس بحث میں فاضل عدالت کی خواہش پر، چوں کہ مکمل طور پر شریک رہا تھا، اس لیے غامدی صاحب کا بھی پورا بیان سننے کا موقع ملا۔ ان کے بیان کے بعد راقم نے فاضل عدالت کو خطاب کر کے کہا کہ غامدی صاحب نے تمام اسلامی مسلّمات کا انکار کیا ہے، اس لیے ہمیں اس بیان پر بحث کرنے اور اس کا جواب دینے کا موقع دیا جائے، لیکن اس وقت کے چیف جسٹس صاحب نے اس درخواست کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔
راقم نے یہ دیکھتے ہوئے کہ فاضل عدالت بوجوہ مزید وقت دینے کو مناسب خیال نہیں کرتی، اپنے اس مفصل بیان کے علاوہ، جو فاضل عدالت میں تحریری طور پر غامدی صاحب سے پہلے پیش کر چکا تھا، ذیل کی تحریر تیار کی۔