کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 309
یہ دونوں کتابیں احادیث کے صحیح ترین مجموعے ہیں۔ موطا امام مالک کی صحت کے تو فراہی گروہ کے ’’امامِ اول ‘‘ مولانا حمید الدین فراہی بھی، احادیث میں اپنے ذہنی تحفظات یا تضادات کے باوجود قائل تھے۔ چناں چہ ان کا ایک مکالمہ، جو حدیث کی حجیت و عدمِ حجیت کے موضوع پر مولانا عبیداﷲ سندھی اور ان کے درمیان ہوا، قابلِ ملاحظہ ہے۔ مولانا عبیداﷲ سندھی لکھتے ہیں:
’’مولانا حمید الدین مرحوم میرے بہت پرانے دوست تھے، قرآن شریف کے تناسقِ آیات میں ہمارا مذاق متحد تھا، اگرچہ طریقے اور پروگرام میں کسی قدر اختلاف رہا۔ وہ بائبل مجھ سے بدرجہا اعلیٰ جانتے تھے اور میں حدیث ان سے زیادہ جانتا تھا۔ جب تک میں ہندوستان میں ان سے ملتا رہا، حدیث شریف کے ماننے نہ ماننے کا جھگڑا کبھی ختم نہیں ہوا۔ اتفاقاً جس سال میں مکہ معظمہ پہنچا ہوں، اسی سال وہ بھی حج کے لیے آئے۔ ہماری باہمی مفصل ملاقاتیں رہیں۔ افکار میں بے حد توافق پیدا ہوگیا تھا، مگر وہاں بھی حدیث کے ماننے نہ ماننے پر بحث شروع ہوگئی۔ ہم نے سختی سے ان پر انکار کیا اور کہا کہ حدیث کو ضرور ہی ماننا پڑے گا۔ تنگ آکر فرمانے لگے: آخر آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: موطا مالک! فرمایا: ہم اس کو مانتے ہیں، میں نے کہا: بس آج سے ہمارا نزاع ختم ہے، ہم آپ کو صحیح بخاری ماننے کے لیے مجبور نہیں کرتے۔ ‘‘[1]
غامدی صاحب کے گمراہ نظریات کے جو متضاد دلائل، بے بنیاد دعوے اور تعلّیات تھیں، الحمد ﷲ، اﷲ کے فضل اور اس کی توفیق سے ہم نے ان کی اصل حقیقت واضح کر دی ہے، جو اس شعر کی مصداق ہیں۔ ؎
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طُرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
جو بھی فریب خوردہ شخص اس مضمون کو طلبِ حق کی نیت صادقہ سے اور غیر جانب دارانہ انداز سے پڑھے گا، إن شاء اﷲ اس پر ان افکارِ باطلہ کے پیچ و خم کی تہ در تہ تہیں کھلتی چلی جائیں گی اور احادیثِ رسول کی حجیت و اہمیت شرعی پر جو دبیز پردے ڈالنے کی مذموم سعی اس گروہ کی طرف سے کی گئی ہے اور مسلسل کی جا رہی ہے، وہ بھی بے
[1] الفرقان (بریلی)شاہ ولي اﷲ نمبر، ص: ۲۸۷، مطبوعہ ۱۳۵۹ھـ