کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 306
کتنا بڑا دعویٰ ہے لیکن بلا دلیل، اور پھر اس کی ’’صحتِ نقل ‘‘ کا دعویٰ، اس سے بھی عجیب تر ہے۔ نقدِ حدیث کے تو اصول و ضوابط منضبط ہیں، اس کے باوجود وہ غیر محفوظ اور کلامِ عرب، جس کی نہ کوئی سند ہے اور نہ پرکھنے کے اصول و ضوابط، پھر بھی ان کی صحتِ نقل کا دعویٰ۔ ﴿اِِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ﴾ (صٓ: 5) ٭ اور ستم ظریفی کی انتہا، یہ کلامِ عرب اس کے باوجود کہ اس میں کچھ منحول کلام بھی شامل ہے۔ [1] (یعنی جعلی) پھر بھی سب سے زیادہ با اعتماد ہے۔ ٭ پھر یہ دعویٰ دیکھیے: ’’جس طرح نقدِ حدیث کے علما اس کی صحیح و سقیم روایتوں میں امتیاز کر سکتے ہیں، اسی طرح اس کلام کے نقاد بھی روایت و درایت کے نہایت واضح معیارات کی بنا پر اس کے خالص اور منحول کو ایک دوسرے سے الگ کر دے سکتے ہیں۔ ‘‘[2] ’’نقدِ حدیث کے ذریعے سے صحیح و سقیم روایتوں میں امتیاز کیا جا سکتا ہے ‘‘ علمائے اسلام تو اس بات کو مانتے ہیں، لیکن آپ تو اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں، پھر اس کا حوالہ کیوں؟ پھر کلامِ عرب میں اصل اور جعلی کے پہچاننے کے ’’نہایت واضح معیارات ‘‘ کیا ہیں اور کہاں ہیں؟ کیا اس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے؟ حدیث، با سند کلامِ نبوی ہے، علاوہ ازیں اس کے پرکھنے کے اصول و ضوابط بھی موجود ہیں۔ پھر بھی وہ غیر مستند، اور کلامِ عرب، جس میں منحول (یعنی الحاقی اور جعلی) بھی ہے اور نقد و تحقیق کے کوئی اصول و ضوابط بھی نہیں۔ وہ سب سے زیادہ مستند اور قابلِ اعتماد؟ ﴿تِلْکَ اِِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی﴾(النجم: 22)
[1] میزان، ص: ۱۹ [2] میزان، ص: ۱۹