کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 305
اول تو موصوف وحیِ خفی سے کسی حکم کے اثبات کے قائل ہی نہیں ہیں اور پھر یہ سراسر جھوٹ اور بلا دلیل دعویٰ ہے۔ اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو کوئی حدیث پیش کریں۔ ٭ ان کا یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے اور جھوٹ بھی کہ ائمہ سلف اور ان کے موقف میں سرِمو فرق نہیں ہے۔ ٭ ان کا دعویٰ ’’صرف کتاب و سنت تنقید سے بالا ہے۔ ‘‘ سراسر جھوٹ، فریب اور بلا دلیل ہے۔ سنتِ نبوی کو تو وہ مانتے ہی نہیں ہیں۔ ہاں سنتِ جاہلیہ کو وہ مانتے ہیں۔ اگر یہ ’’سنتِ جاہلیہ ‘‘ جو ان کے نزدیک قرآن سے بھی مقدم ہے، ان کے نزدیک تنقید سے بالا ہے، تو یہ غامدی گروہ ہی کو مبارک ہو۔ اہلِ اسلام تو اس بات کو ماننے سے رہے۔ ٭ ’’امام فراہی کی ’’تحقیق ‘‘، ’’قرآنی نصوص ‘‘ پر مبنی ہے۔ ‘‘ سراسر جھوٹ، فریب اور بلا دلیل دعویٰ ہے۔ یہ تو قرآن میں تحریف معنوی ہے، اسے ’’قرآنی نصوص ‘‘ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے؟! ٭ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ اور غامدی قبیلے کی صحابیہ رضی اللہ عنہا، ان کی بابت دعویٰ کہ وہ غنڈے، بدمعاش اور اوباش و آوارہ منش تھے، وہ عورت پیشہ ور بدکار (قحبہ) تھی، بلا دلیل اور جھوٹ ہے۔ ٭ ان کا یہ دعویٰ جھوٹ اور بلا دلیل ہے کہ ’’قرآن نے اپنے متعلق یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ وہ قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ ‘‘[1] قرآن میں یہ صراحت کہاں ہے؟ ٭ کلامِ عرب، یعنی زمانۂ جاہلیت کے عرب شعرا کا کلام، جو فراہی گروہ کے نزدیک قرآن فہمی میں احادیث سے بھی زیادہ مستند اور مفید ہے، اس کی بابت دعویٰ ہے: ’’لغت و ادب کے ائمہ اس بات پر ہمیشہ متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے، جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور جو صحتِ نقل اور روایت باللفظ کی بنا پر زبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘[2]
[1] میزان، ص:31 [2] میزان، ص: ۱۹