کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 304
سارے پہلو بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کی یہ بات درست ہے اور یہ وہی موقف ہے، جو احادیث کی تشریعی حیثیت کے قائلین کا ہے۔ اگر یہی موقف احادیثِ رجم میں بھی اختیار کر لیا جاتا تو ان کا ظاہری تناقض بھی دور ہوجاتا اور رجم کے حدِ شرعی ہونے کا پہلو بھی نمایاں ہو کر سامنے آجاتا، لیکن وہاں چوں کہ ان کی ضرورت کچھ اور تھی، اس لیے وہاں جمع و تطبیق کی یہ صورت جو علما و محدثین بیان کرتے اور اختیار کرتے ہیں اور یہاں خود غامدی صاحب نے بھی اسے اختیار کر کے بیان کیا ہے، وہاں اسے اختیار نہیں کیا، لیکن یہاں اس کو اختیار کر لیا، کیوں کہ یہاں ان کی ضرورت کچھ اور ہے اور وہ ہے تصویر سازی کا جواز و اثبات۔ لیکن چوں کہ ان کی نیت اور مقصد میں فساد ہے، اس لیے طریقہ تو یقیناً محدثین والا اختیار کیا ہے، تاہم نتیجہ محدثین کے نتائج سے یکسر مختلف اَخذ کیا ہے۔ اس باب کی یہی تمام حدیثیں محدثین اور علمائے اسلام کے سامنے بھی ہیں اور آج ہی نہیں، صدیوں سے ہیں، لیکن ان کو کسی حدیث سے بھی تصویر کا جواز معلوم نہیں ہوا اور وہ آج بھی ان احادیث کی وجہ سے تصویر کی حرمت ہی کے قائل ہیں نہ کہ جواز کے۔ اس گروہ سے پوچھا جائے کہ کون سی حدیث کے کون سے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے: ‘‘ممانعت کا حکم صرف ان تصویروں کے بارے میں ہے، جو پرستش کے لیے بنائی گئی ہوں۔ ‘‘ کیوں کہ حدیث میں تو وجہ ممانعت، اﷲ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت میں مشابہت ہے۔ علاوہ ازیں اگر ممانعت کی یہی علت (پرستش سے بچانا) تسلیم کر لی جائے، تب بھی اس کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ علت آج بھی موجود ہے۔ آپ ان قبروں پر جا کر دیکھ لیں، جو پرستش گاہیں بنی ہوئی ہیں اور مرجع خلائق ہیں۔ وہاں ننگ دھڑنگ ملنگوں اور صدیوں پہلے فوت شدہ بزرگوں کی جعلی تصویریں خوب فروخت ہوتی ہیں، لوگ ان کو لے جا کر فریم کروا کے گھروں اور دکانوں میں تبرک کے طور پر لٹکاتے ہیں۔ کیا یہ پرستش کی صورت نہیں ہے؟ گویا غامدی صاحب کا مذکورہ اقتباس ان کے تضاد کا بھی مظہر ہے اور بلا دلیل دعوے کا بھی۔ جھوٹ اور بلا دلیل دعوے: اور بھی انھوں نے بلا دلیل دعوے کیے ہیں، جن کی کچھ تفصیل گزشتہ صفحات میں بھی گزری، مثلاً: ٭ رجم کی تعزیزی سزا کا مبنیٰ، آیتِ محاربہ ہے اور یہ بات وحیِ خفی کے ذریعے سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائی گئی۔