کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 303
دے کر یا تو ساری متعلقہ احادیث کو ردّ کر دیتے ہیں، جیسے رجم کی مستند اور متفق علیہ روایات کو ردّ کر دیا گیا یا پھر ان سے کوئی غلط مسئلہ نکال لیتے ہیں، دراں حالیکہ ان سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا۔ اس کی مثال خود غامدی صاحب کی ’’میزان ‘‘ سے ملاحظہ فرمائیں:
’’چوتھی چیز یہ ہے کہ کسی حدیث کا مدعا متعین کرتے وقت اس باب کی تمام روایات پیشِ نظر رکھی جائیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حدیث کا ایک مفہوم سمجھتا ہے، لیکن اسی باب کی تمام روایتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ مفہوم بالکل دوسری صورت میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال تصویر سے متعلق روایتیں ہیں۔ ان میں سے بعض کو دیکھیے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی تصاویر ممنوع قرار دی گئی ہیں، لیکن تمام روایتیں جمع کیجیے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ممانعت کا حکم صرف ان تصویروں کے بارے میں ہے، جو پرستش کے لیے بنائی گئی ہوں۔ حدیث کے ذخیرے سے اس طرح کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کسی حدیث کے مفہوم میں تردد ہو تو احادیثِ باب کو جمع کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہ کی جائے۔ ‘‘[1]
اس اقتباس کو پڑھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ غامدی صاحب کی شخصیت گرگٹ کی طرح ہے، جو رنگ بدلتی رہتی ہے اور موصوف حالات و ضرورت کے تحت بھیس بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ فکر و نظر میں پختگی کی کمی ہی نہیں، بلکہ ابن الوقتی اور اسلام کے روئے آبدار کو مسخ کرنا ہے۔ یہ مقصد جس طرح بھی حاصل ہو، اس کے لیے اس طریقے کے اختیار کرنے میں انھیں کوئی تأمل نہیں ہوتا اور جو بھی ہتھکنڈا انھیں اپنانا پڑے، اس کے لیے وہ تیار رہتے ہیں۔
انھیں اپنے یا ان کے ’’امام ‘‘ کے خود ساختہ نظریۂ رجم کے اثبات میں رجم کی صحیح، متواتر اور متفق علیہ روایات حائل نظر آئیں تو ان کو باہم متناقض باور کراکے یا قرآن کے خلاف قرار دے کر رد کر دیا۔
اب اس تازہ اقتباس میں انھوں نے اس کے بالکل برعکس رویہ اختیار کیا ہے، یہاں وہ تلقین فرما رہے ہیں کہ ایک مسئلے سے متعلقہ تمام احادیث کو دیکھنا چاہیے، اس سے ان کا ظاہری تعارض بھی دور ہوجاتا ہے اور مسئلے کے
[1] میزان، ص: ۶۴۔ ۶۵