کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 302
(2)امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم پر ایک حبشی کو امام بنا دیا جائے، جس کا سر منقّٰی ایسا ہو تو اس کی بات سننا اور اس کے اطاعت شعار رہنا۔ ‘‘ (3) (ایک تیسری روایت اسی مفہوم کی صحیح مسلم سے نقل کر کے) شیخ ابو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اگر مذکورۃ الصدر روایات کو حدیث: ’ إِنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ فِيْ قُرَیْشٍ ‘کے ساتھ یکجا کر کے دیکھا جائے تو یہ حقیقت اُجاگر ہوتی ہے کہ نصوص بحیثیتِ مجموعی یہ تاثر پیدا نہیں کرتیں کہ امامت قریش میں محدود ہے اور کسی اور کی خلافت صحیح نہیں۔ بخلاف ازیں احادیث کا بحیثیتِ مجموعی یہ مفہوم ہوگا کہ غیرِ قریش کی امامت درست ہے اور آپ نے حدیث: ’ اَلْأَمْرُ فِيْ قُرَیْشٍ ‘میں اخبار بالغیب کے طور پر ایک ہونے والے واقعے سے آگاہ فرمایا تھا۔ ۔ ۔ یا آپ کا مقصد یہ ہوگا کہ قریش کی خلافت دوسروں سے افضل ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے کسی اور کی خلافت درست ہی نہیں۔ ‘‘ ۔ ۔ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قول کا محمل اور مطلب بیان کر کے لکھتے ہیں: ’’جب امامت کا انحصار قوت و شوکت پر رکھا گیا ہے تو جہاں یہ اوصاف پائے جائیں گے وہیں خلافت و امامت پائی جائے گی۔ یہ ہے امامت کے قریش میں ہونے کی اصل وجہ! اور یہ ہے ان آثارِ صحیحہ اور اس مناط و مدار کی حقیقت و ماہیت، جس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بارے میں اجماع منعقد ہوا تھا۔ ‘‘[1] گرگٹ کی طرح حالات و ضرورت کے مطابق رنگ اور بھیس بدلنا: 9۔ علمائے اسلام کا رویہ اور طرزِ استدلال دیکھ لیا کہ وہ تمام احادیث کو دیکھتے اور ان سے بحیثیتِ مجموعی جو بات ثابت ہوتی ہے، اس کو اختیار کرتے ہیں۔ اس کو جمع و تطبیق کہا جاتا ہے، اس سے روایات کا ظاہری تعارض بھی دور ہوجاتا ہے اور مسئلے کے سارے پہلو بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ علمائے اسلام اس طرح کے ظاہری تعارض کو باہم متناقض ثابت کر کے احادیث کو ردّ نہیں کرتے، بلکہ ان کا معقول حل اور محمل تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کے برعکس منکرینِ حدیث اس قسم کے ظاہری تعارض کو دیکھ کر بڑا خوش ہوتے اور ان کو باہم متناقض قرار
[1] المذاھب الإسلامیۃ، اردو ترجمہ، ص: ۱۱۲۔ ۱۱۳