کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 300
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پا ژند
؎
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را
لیکن دوسرے منکرینِ حدیث کو وہ یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، چناں چہ لکھتے ہیں:
’’انھیں قرآن سے براہِ راست اَخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ قرآن کے بزعم خود بعض مفکرین نے اس زمانے میں کی ہے اور اس طرح قرآن کا مدعا بالکل اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ ‘‘[1]
ہوسکتا ہے اس سے ان کا اشارہ اُن منکرینِ حدیث کی طرف ہو، جو انہی کی طرح احادیث کو غیر معتبر اور ماخذ شرعی نہیں مانتے۔ جب آپ اور وہ ایک ہی کشتی کے سوار، ایک ہی منہج کے حامل، ایک ہی فکر اور نظریے کے داعی، ایک ہی منزل کے راہی اور سلف کی تفسیر و تشریحِ دین کے یکساں دشمن ہیں تو پھر اس مغایرت کے اظہار کے کیا معنی؟ اور ان پر نشتر زنی کیوں؟
اگر آپ کے اندر یہ اہلیت ہے کہ تمام ائمۂ اعلام اور اساطینِ علم کے موقف کے برعکس سنتِ رسول کا تیا پانچا کر دیں، قرآن میں تحریفِ معنوی کا ارتکاب کر کے اپنے من گھڑت نظریے کو قرآن کے سر منڈھ دیں تو دوسرا منکرِ حدیث بھی آپ ہی جیسی اہلیت کا مدعی ہو کر قرآن کے صلاۃ و زکات کے مفہوم کو بدل ڈالے تو اس کو اس کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
بنا بریں دوسرے منکرینِ حدیث اور بزعمِ خود منکر بننے والوں سے اپنے آپ کو مختلف باور کرانا بھی ایک مغالطہ انگیزی اور سراسر دھوکا اور فریب ہے، جب کہ اصل میں دونوں ایک ہیں ؎
کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی
[1] میزان، ص: ۴۷