کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 299
پر فخر کریں کہ تیرہ سو سال بعد ہم نے قرآن سے ’’اوباشی ‘‘ کی سزا ڈھونڈ نکالی ہے، جو آج تک کسی کو نظر نہیں آئی، حالاں کہ وہ ’’نصوصِ قرآنی ‘‘ پر مبنی ہے۔ ما شاء اﷲ، چشم بد دور، یہ کام بقول شاعر ؎
یوں دھم سے کوئی میداں میں نہ کودا ہو گا
جو ہم نے کیا، رستم نے نہ کیا ہو گا
اس تفصیل کی روشنی میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا یہ فرمان مغالطے کے سوا کیا ہے:
’’تنقید سے بالاتر اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف کتاب و سنت ہیں۔ ‘‘[1]
اس لیے کہ اہلِ اسلام میں ’’سنت ‘‘ کا جو متعارف معنی اور اصطلاحی مفہوم ہے، موصوف اس کو مانتے ہی نہیں ہیں تو پھر ان کا یہ نعرۂ مستانہ آنکھوں میں دھول جھونکنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
تشریح و تعبیر کا حق کس کو حاصل ہے؟
7۔ پھر یہ بات بھی خوب ہے:
’’ان کی تعبیر و تشریح کا حق ہر اس شخص کو حاصل ہے، جو اپنے اندر اس کی اہلیت پیدا کر لے۔ ‘‘[2]
اس طرح وہ اپنا تو یہ حق سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی جس طرح چاہیں تعبیر و تشریح کریں، چاہے وہ تشریح و تعبیر ائمۂ سلف سے کتنی ہی مختلف اور اقبال کے ان اشعار کی مصداق ہو ؎
قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
؎
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
؎
[1] برہان، ص: ۳۷
[2] برہان، ص: ۳۷