کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 298
تھی۔ اس لحاظ سے ظاہر بات ہے کہ یہ سنتِ جاہلیہ اور بقول غامدی صاحب ’’دینِ ابراہیمی کی روایت ‘‘ قرآن سے پہلے، یعنی قرآن پر مقدم ہے۔ یعنی قرآن بعد میں نازل ہوا ہے اور عرب ان ’’سنتوں ‘‘ پر پہلے ہی سے عمل پیرا تھے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ وہ ’’سنت ‘‘: ’’لازماً اس کے حاملین کے اجماع و تواتر ہی سے اَخذ کی جائے گی۔ قرآنی احکام کی تفصیلات بھی اسی اجماع و تواتر پر مبنی روایت سے متعین ہوں گی، انھیں قرآن سے براہِ راست اَخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ ‘‘ جب ’’سنت ‘‘ وہ ہے جس پر اہلِ عرب قرآن سے پہلے عمل کرتے تھے تو اس ’’سنت ‘‘ کے حاملین کون ہوئے؟ اہلِ جاہلیت ہی۔ اس لیے ’’سنت ‘‘ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل یا صحابہ کے عمل سے نہیں، کیوں کہ یہ تو سب نزولِ قرآن کے بعد کی باتیں ہیں، بلکہ اہلِ جاہلیت کے اجماع و تواتر سے لی جائے گی، اس لیے کہ وہی قرآن سے پہلے ’’دینِ ابراہیمی کی روایت ‘‘ کے حاملین تھے اور انہی حاملینِ سنت جاہلیہ کے اجماع و تواتر پر مبنی روایت ہی سے قرآنی احکام کی تفصیلات بھی متعین ہوں گی۔ انھیں قرآن سے براہِ راست اَخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ لو! پہلے تو حدیث ہی کی عدمِ محفوظیت کا دعوی تھا۔ اب قرآن بھی ان کی ترکتازیوں کا نشانہ بن گیا ہے اور اس پر بھی سنتِ جاہلیہ کے حاملین اور ان کے اجماع و تواتر کی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ سبحان اﷲ! کیا ’’سنت ‘‘ کا مفہوم اور اس کی ’’اہمیت ‘‘ کا بیان ہے؟ سنتِ نبویہ سے جان چھڑاتے چھڑاتے، قرآن سے بھی جان چھوٹ گئی۔ پہلے تو ان کے خود ساختہ نظریات میں سنت و حدیث رکاوٹ تھی، اب قرآن کا سنگِ گراں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ لیکن ٹھہریے! قرآنی احکام کی تفصیلات براہِ راست قرآن سے اَخذ نہیں کی جائیں گی، کیوں کہ اہلِ جاہلیت کا عمل ہی کافی ہے۔ البتہ فراہی گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا خود ساختہ اور بے بنیاد نظریہ براہِ راست قرآن سے اَخذ کریں اور پھر اس