کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 297
کی بابت یقیناً وضاحت کی ہے کہ پچھلی شریعتوں میں بھی ان کا سلسلہ تھا، جیسے قربانی کا تصور حضرت آدم کے زمانے ہی سے ملتا ہے۔ نماز، زکات، روزہ، حج و عمرہ کا بھی ذکر ملتا ہے، مگر محض ان چند چیزوں کے ناموں کے ذکر سے کیا یہ معلوم ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ وہ نماز کس طرح پڑھتے تھے؟ زکات ادا کرنے کی کیا صورت تھی؟ حج، عمرہ کس طرح کرتے تھے؟ روزہ کس طرح رکھتے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان کا طریقہ اور ان کی تفصیلات تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بیان فرمائی ہے، جس سے جان چھڑانے کے لیے یہ سارے پاپڑ بیلے جا رہے ہیں، لیکن ان بے معنی سخن سازیوں اور یکسر بے بنیاد دعوؤں اور باتوں سے تو احادیث کی تشریعی حیثیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ؎ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا غامدی صاحب چاہتے ہیں، سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، حدیثِ رسول کی تشریعی حیثیت بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے اور اس کا الزام بھی ان کے سر نہ آئے۔ اس لیے وہ بار بار ’’سنت ‘‘ کا نام بھی لیتے ہیں اور اس کے سینے میں چھرا گھونپنے سے باز بھی نہیں آتے ؎ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں 6۔ مزید سنیے! ’’سنت ‘‘ کے اسی جاہلی تصور کی بابت لکھتے ہیں: ’’سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے، اس لیے وہ لازماً اس کے حاملین کے اجماع و تواتر ہی سے اخذ کی جائے گی۔ قرآن میں جن احکام کا ذکر ہوا ہے، ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع و تواتر پر مبنی روایات سے متعین ہوں گی۔ انھیں قرآن سے براہِ راست اَخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ قرآن کے بزعمِ خود بعض مفکرین نے اس زمانے میں کی ہے اور اس طرح قرآن کا مدعا بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے۔ ‘‘[1] ’’سنت قرآن سے مقدم ہے ‘‘ پڑھ کر اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیے کہ غامدی صاحب نے سنت کی اہمیت کو تسلیم کر لیا ہے، بلکہ یہاں ’’سنت ‘‘ سے مراد وہی اہلِ جاہلیت کی سنت ہے، جو یقیناً قرآن کے نزول سے پہلے تھی، اس لیے کہ پچھلے اقتباس میں وہ وضاحت کر چکے ہیں کہ عرب نزولِ قرآن سے پہلے نماز، زکات، روزہ وغیرہ سے متعارف تھے، اس لیے نہ قرآن میں ان کی تفصیلات کا ذکر ہے اور نہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرح و تفصیل بیان کرنے کی ضرورت
[1] میزان، ص: ۴۷