کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 295
سلف کے موقف میں کتنا بعد المشرقین ہے اور ان کے درمیان اتنی وسیع خلیج حائل ہے، جسے لفاظی اور سخن سازی سے پاٹنا ناممکن ہے۔ موصوف اپنی نو دریافت 27 سنتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قرآن سے پہلے ہی:
’’(عرب معاشرے میں) یہ سب چیزیں پہلے سے رائج، معلوم و متعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھی، چناں چہ اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن ان کی تفصیل کرتا۔ لغتِ عرب میں جو الفاظ ان کے لیے مستعمل تھے، ان کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے انھیں نماز قائم کرنے یا زکات ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج و عمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکات، روزہ اور حج و عمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔ قرآن نے ان میں سے کسی چیز کی ابتدا نہیں کی، ان کی تجدید و اصلاح کی ہے اور وہ ان سے متعلق کسی بات کی وضاحت بھی اسی حد تک کرتا ہے جس حد تک تجدید و اصلاح کی اس ضرورت کے پیشِ نظر اس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ ‘‘
اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں:
’’دینِ ابراہیمی کی روایت کا یہ حصہ جسے اصطلاح میں سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآن کے نزدیک خدا کا دین ہے۔ ‘‘[1]
سمجھے آپ؟ آپ غامدی صاحب کی نو دریافت سنتوں کی فہرست پر، جو ہم پہلے نقل کر آئے ہیں، ایک نظر ڈال لیں، ان کی بابت ان کا کہنا یہ ہے کہ عربوں میں یہ پہلے ہی متعارف تھیں، لغتِ عرب کی رُو سے بھی یہ چیزیں ان کا مصداق تھیں، جب قرآن نے بھی ان کے کرنے کا حکم دیا تو ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف قرآن کا حکم ہے، اس نے ان کی ابتدا کی ہے، بلکہ ان کو پہلے ہی معلوم تھا کہ نماز، زکات، روزہ اور حج و عمرہ وغیرہ کن چیزوں کے نام ہیں؟ اس ساری دراز نفسی کا مقصد کیا ہے؟ صرف یہ ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن میں نماز، زکات وغیرہ کے جو احکام ہیں، وہ مجمل ہیں، ان کی تفصیل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے، جو احادیث میں محفوظ ہے۔
مذکورہ اقتباس میں غامدی صاحب نے کمال ہشیاری اور نہایت فن کاری سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرح و
[1] میزان، ص: ۴۶