کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 294
ان کا وجود اگر کہیں ہے تو صرف غامدی صاحب کے نہاں خانۂ قلب میں ہے یا ان کی لوحِ حافظہ پر ثبت ہیں اور یہ دونوں جگہیں ایسی ہیں جہاں ان کے علاوہ ان کو کوئی اور ملاحظہ کر ہی نہیں سکتا۔ اگر کہا جائے کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ان سنتوں کی بنیاد عملی تواتر ہے تو عملی تواتر کی اصطلاح تو یکسر مبہم ہے۔ اہلِ اسلام کے نزدیک تو تمام احادیثِ صحیحہ عملی تواتر سے ثابت ہیں۔ اس معنی میں کہ ان احادیث کو اپنی کتابوں میں درج کرنے والوں نے اپنے سے لے کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تک سلسلۂ اسناد کا اتصال ثابت کیا ہے۔ اسی لیے صحیح حدیث کہا ہی اس کو جاتا ہے، جو مرفوع، متصل ہو اور سلسلۂ رواۃ عادل، ضابط اور ثقہ افراد پر مبنی ہو۔ یہ قولی اور عملی تواتر کا ایسا بے مثال نمونہ ہے جس کی تاریخِ انسانیت میں کوئی اور نظیر موجود نہیں۔ 3۔ علاوہ ازیں انھوں نے ان سنتوں کی بھی تحدید کر دی ہے کہ وہ 27 ہیں۔ اگر کہا جائے کہ ان کے عملی تواتر کی بنیاد یا ثبوت کیا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اس کا آغاز صحابہ ہی سے کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ صحابہ نے صرف ان 27 سنتوں ہی پر عمل کیا تھا یا تمام سنتوں (احادیث) پر عمل کیا تھا؟ اس لیے سب سے پہلے تو اس سوال کا جواب اور اس کا ثبوت دیا جائے کہ صحابہ نے صرف ان 27 اعمال ہی کو سنت سمجھ کر عمل کیا اور دوسرے تمام اعمال کو غیر سنت سمجھ کر عمل نہیں کیا۔ اگر صحابہ نے بغیر تحدید (حد بندی) کے ہر سنت و حدیث پر عمل کیا ہے اور یقیناً انھوں نے ایسا ہی کیا ہے اور اس کا ثبوت کتابوں میں محفوظ احادیثِ نبویہ ہیں اور صحابہ کو دیکھ کر تابعین و تبع تابعین نے کیا۔ وَھَلُمَّ جَرَّا۔ اسی طرح تمام احادیثِ رسول پر تمام صحیح العقیدہ والعمل مسلمان عمل کرتے آرہے ہیں۔ اس اعتبار سے تمام صحیح احادیث عملی تواتر کا نمونہ ہیں۔ اب یہ غامدی گروپ کی ذمے داری ہے کہ وہ اس ذخیرۂ احادیث سے ماورا، اپنی 27 سنتوں کا تحریری ثبوت نسل در نسل کے حساب سے پیش کرے، جیسے الحمدﷲ ہمارے پاس تمام سنتوں (حدیثوں) کا نسلاً بعد نسلٍ تحریری ثبوت موجود ہے۔ 4۔ غامدی صاحب کے نزدیک ’’سنت ‘‘ کیا ہے؟ اس کی وضاحت غامدی صاحب نے اپنی مایۂ ناز کتاب ‘‘میزان ‘‘ میں پوری تفصیل سے کی ہے۔ اقتباس اگرچہ طویل ہے، لیکن انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں تو بہتر ہے، تاکہ دنیا دیکھ لے کہ ان کے موقف اور ائمہ